27 مارچ 1948 کو پاکستان نے بزور طاقت بلوچستان کے آزاد حیثیت کو سلب کرتے ہوئے اس پر قبضہ کرلیا تھا بلوچ قوم ہر سال اس دن کو یوم ِ سیاہ کے طور پر مناتی ہیں ۔ بلوچ اپنی قومی آزادی کو دوبارہ حاصل کرنے کی روز اوّل جب سے شعوری طور پر ایک جدوجہد شروع کرچکے ہیں۔ اس کی ابتداء شہزادہ آغا عبدالکریم اور ساتھیوں کی مزاحمت سے شروع ہوئی تھی جو ہنوز جاری ہے۔ ان سات دہایوں پر محیط جدوجہد میں بلوچ قوم کے ہزاروں فرزندوں، بزرگوں، ماؤں، بیٹیوں نے اپنی جان و مال کی قربانی سے مادر وطن کی پیاس کو بجھایا ہے اور یہ جدوجہد اور قربانیاں آج بھی جاری ہیں ۔بلوچ قومی آزادی کے راہ میں جانوں کا نذرانہ دینے والے تمام شہداء بلوچ قوم کے ہیرو اور رہنماء ہوتے ہیں ان کا دلیرانہ اور بے باک قومی کردار قابل تحسین ہے بلوچ نسلیں اپنی تاریخ کے تمام ادوار میں اپنے قومی شہداء کو سرخ سلام و خراج تحسین پیش کرتے رہیں گے بلوچ سرزمین کی شہدا کی ایک طویل اور نہ ختم ہونے والی فہرست ہے۔میری قلم کی سیاہی شائد ختم ہو جائے گی، لیکن ان شہدا کے نام ختم نہیں ہوں گے۔جنہوں نے اپنی قمیتی جانوں کا نذرانہ دیا ہے اور اب بھی بلوچ فرزند اپنی سرزمین کے لیے اس ظالم قابض ریاست پاکستان کے خلاف جد وجہد میں اپنی جانوں کا نذرانہ دے رہے ہیں۔ہم سب اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ بلوچ قوم کے جینے کا مقصد بلوچستان پر سے قبضہ گیریت کو ختم کرنا ہے۔ اور اپنے وطن کے لیے اپنی جانوں کی قربانیاں دینے کا مقصد بلوچستان کو دوبارہ ایک آزاد ریاست کی حیثیت دلانا ہے۔جب آزادی کے لیے اپنی جان کی قربانی دینے والے میر محراب خان کے ہاتھ سے ہتھیار گرا تو اسے حمل نے اٹھایا اسکے بعد بابو نوروز خان اور اسکے فرزندوں نے آزادی کے لیے ہتھیار اٹھائے۔آزادی کی جنگ کے کارواں میں باباۓ بلوچ قوم نواب خیربخش مری کے فرزند بالاچ مری اور نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت نے نئی جدت اور شدت پیدا کر دی ہے ۔اب آزادی کی یہ جنگ بلوچ قوم کے ہر کوچے اور گھر تک پہنچ چکی ہے۔آج بلوچ قوم کے ہر گھر میں بلوچستان کی آزادی کے لیے اپنی جان کی قربانی دینے والا ایک شہید ضررو ہے۔میر محراب خان سے لے کر آج تک جتنے بھی بلوچ فرزند اس مٹی کے لیے شہید ہوۓ ہیں۔انکا عزم اور چاہت صرف اور صرف بلوچستان کی آزادی ہے۔ایسے جانثاروں کے ہوتے ہوۓ وہ دن دور نہیں جب بلوچستان انشاء اللہ ایک آزاد ملک کی حیثیت میں دنیا کے نقشے پر ہو گا۔
إرسال تعليق