بلوچستان کے روشن ستاروں کا برباد مستقبل



اگر ہم بلوچستان کی تعلیمی اداروں پر نظر ڈالیں تو بلوچستان کے طالب علموں کو اسکول سے لے کر ایم فل، پی ایچ ڈی تک مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بلوچستان میں صرف ایک یونیورسٹی ہے جس میں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے نوجوان تعلیم حاصل کرنے کے لئے آتے ہیں،اور بلوچستان یونیورسٹی میں 40 سے 45 ڈیپارٹمنٹ ہے جن میں پورے بلوچستان سے ہر سال کم و بیش پندرہ ہزارطلباء داخلہ لینے کے لئے فارم جمع کرتے ہیں، جن میں سے پانچ یا چھ ہزار طالبعلموں کو داخلہ ملتا ہے، اور باقی تمام مایوس لوٹ جاتے ہیں، پچھلے کئی دہائیوں سے بلوچستان کے طالب علم اس ظلم اور نہ انصافی کے شکار ہیں اکیسویں صدی میں بھی بلوچستان کی تعلیمی نظام پسماندگی کا شکار ہیں، ہر دور حکومت میں حکمرانوں نے تعلیمی ایمرجنسی کے نافذ کرنے کے دعوے کئے مگر سرکاری سکولوں کی تقدیر نہ بدل سکی۔ سرکاری اعداد شمار کے مطابق بلوچستان میں ٹوٹل 13 ہزار 6 سو 75 سکول موجود ہیں جن میں سے 11 ہزار7 سو47 سکولوں کی بلڈنگ موجود ہیں جبکہ 16سو 25 سکول کاغذوں کی حدتک موجود ہیں.برآں 5 ہزار 3 سو 64 سکولوں میں صرف ایک استاد طالب علموں کو زیور تعلیم سے آراستہ کررہے ہیں،7 ہزار 9 سو 11سکولوں میں واش روم سرے سے موجود ہی نہیں ہیں، 10 ہزار 55 سکولوں میں پانی کی سہولت موجود نہیں ہیں،5ہزار 8 سو 40 چاردیواری سے محروم ہیں جو سیکورٹی کا ایک بڑا رسک بھی ھے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں اب بھی 12 لاکھ سے زائد بچے تعلیم جیسے بنیادی حق سے محروم ہیں اور ان میں سے 5 سے 15 سال تک کے زیادہ تر بچے اپنے گھرانوں کی معاشی ضروریات کے لیے کچرہ چننے، مکینک شاپس اور دیگر مزدوری کے کام کرنے پر مجبور ہیں۔قوموں کا عروج و زوال نوجوانوں کے مستقبل سے وابستہ ہوتا ہے مگر بلوچستان میں طلباء کا کوئی مستقبل نہیں، نظام تعلیم تباہ ہوکر رہ گیا ہے۔

بلوچستان میں ایک غریب کا بچہ تعلیم حاصل کرنے کے بجائے فٹ پاتھ پر بیٹھ کر جوتوں کی پالش اور کسی گیراج یا ہوٹل میں کام کرنے کو ترجیح دیتا ہے کیونکہ وہ اپنے گھر میں غربت دیکھ کر گھر والوں کا سہارا بننا چاہتا ہے۔ کیا ان بچوں کا حق نہیں کہ یہ بھی ڈاکٹر اور انجینئر بنیں؟

دنیا نے آسمان کی بلندیوں کو چھولیا ہے جبکہ بلوچستان کا تعلیمی معیار ابھی تک تختی اور سلیٹ تک محدود ہے۔ بلوچستان کے روشن ستاروں کا برباد مستقبل ایک حساس اور سنجیدہ شخص ہی دیکھ سکتا ہے، مگر افسوس ہمارے حکمران بلوچستان کے طلباء کی بربادی کو سنجیدہ نہیں لے رہے۔

بلوچ طلباء تاریخ کے ایک ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں انہیں آئے روز نت نئے مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور تعلیمی ایمرجنسی کا دعویٰ کرنے والی حکومت ان مسائل کے حل میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔حکومت ہر سال تعلیم کے نام پر کرڑوں روپے کا بجٹ مختص کرتی ہیں مگر یہ بجٹ کرپشن کی نظر ہو جاتا ہے جس کی ایک وجہ بلوچستان گھوسٹ اساتذہ کی کثیر تعداد ہیں جو گھروں میں بیٹھے تنخواہیں وصول کررہے ہیں۔

بلوچستان بھر کے تعلیمی ادارے بالخصوص کالجز اور یونیورسٹیاں اس وقت سکیورٹی اداروں کے مکمل قبضے میں ہیں جس کی وجہ سے طلبہ شدید ذہنی کوفت کا شکار ہیں مگر ان نااہل حکمرانوں کو کبھی بھی یہ نظر نہیں آتا .ریاست شروع دن سے مذہبی شدت پسندی کو پروان چڑھا کر ہماری ترقی پسندانہ سوچ، قومی تاریخ اور قومی تہذیب کو متاثر کررہی ہیں لہٰذا بحیثیت قوم ہمیں ریاست کے سازش کو سمجھ کر اس کے خلاف شعوری جدوجہد کرنا ہوگا۔مذہبی شدت پسندی کو پروان چڑھا کر ریاست اپنے مطلوبہ مقاصد کی تکمیل کے لئے طالبات کو تعلیمی اداروں سے دور رکھنے کے منصوبوں پر عمل پیرا ہو کر بلوچ سماج کو قدامت پسندی اور تقلید پرستی کی جانب لے جارہی ہیں بلوچستان میں تعلیمی نطام کی زبوں حالی نے طلبہ و طالبات کو مجبور کردیا ہے کہ وہ اپنا قیمتی وقت کلاسز کے بجائے سڑکوں اور پریس کلبوں میں احتجاج کر کے گزارتے ہیں جو کہ بلوچستان حکومت اور محکمہ تعلیم کی نااہلی اور غیر سنجیدگی کو ظاہر کرتی ہیں۔ اگر تعلیمی نطام یوں ہی زبوں حالی کا شکار رہا تو تعلیم کے حوالے سے اسکے سنگین نتائج برآمد ہونگے جن کی ذمہ داری حکومتی اداروں پر عائد ہوگی۔ بلوچستان کے تعلیمی نطام کی بہتری کے لئے زمہ داران نے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے ہمیشہ طالب علموں کو دبانے کی پالیسی اپنائی ہے اور ہمیشہ اپنی نااہلی کو چھپانے کے لئے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا ہےتعلیمی اداروں کے اندر دانستہ طور اکثر کوئی نہ کوئی مسئلہ پیدا کرکے طلباء کو مسائل کے خلاف احتجاج میں مشغول کردیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے طلباء و طالبات کی تعلیم حاصل کرنے کا تسلسل ٹوٹ جاتا ہے جو کہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ تعلیم دشمن پالیسیوں میں شدت کے سبب تعلیمی صورتحال نہایت ہی خراب ہیں جہاں ایک طرف بلوچ طالبعلموں کے لیے تعلیم کے دروازے بند کیے جا رہے ہیں تو دوسری جانب تعلیمی اداروں میں ایک ایسی فضا قائم کی جا رہی ہے جہاں طالبعلم تعلیمی تسلسل کو جاری رکھنے سے قاصر ہیں۔ بلوچ طالبعموں نے مسائل کے حل کے لیے ہمیشہ سے جدوجہد کا راستہ اپنایا ہے جبکہ موجودہ حالت مزید جدوجہد کا تقاضا کرتی ہیںان دگرگوں حالات میں طلباء کو اپنے تعلیمی مستقبل کے حوالے سے مختلف خطرات لاحق ہے جس کی واضح مثال بلوچ طلباء کی ملتان سے اسلام آباد پیدل لانگ مارچ ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ طلبا کے اس انتہائی اقدام کے باوجود انہیں مسلسل نظر انداز کرنا حکومت کی تعلیم جیسے بنیادی حقوق کے حوالے سے بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔بلوچستان میں نااہل انتظامیہ کی تعلیم دشمن پالیسیوں سے لیکر پنجاب کے مختلف تعلیمی اداروں میں بلوچ طلباء کے لئے مختص اسکالر شپس کا خاتمہ بلوچ طالبعلموں کو تعلیم سے دور کرنے کے مترادف ہے۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی