بلوچستان کے بدترین حالات اور غیر محفوظ بلوچ عورت

 

بلوچستان کے بدترین حالات بلوچ خواتین کی زندگیوں پر کئی گنا زیادہ ہوکر اثر انداز ہو رہی ہیں۔آج اگر بلوچستان میں خواتین کی زندگیوں کا جائزہ لیا جائے تو اس خطے کی خواتین ایک بدترین زندگی گزارنے پر مجبور ہے، جسکی وجہ پدر شاہی نظام نہیں بلکہ خطے کی موجودہ بد ترین حالات ہیں جو کہ خواتین پر کئی گنا زیادہ ہوکر اثر انداز ہو رہی ہے ۔ صوبے میں صحت کی سہولیات میسر نہ ہونے کے سبب سالانہ کئی اموات واقع ہوتے ہیں جس میں خواتین کی ایک بڑی تعداد شامل ہے .معاشرہ تب ترقی کرسکتا ہے جب مرد اور عورت میں تفریق باقی نہ رہے. زندگی کے ہر شعبے میں باہمی ساتھ اور ہمراہی بننا ہی زندگی کے ہر مشکلات کو آسان بنا دیتا ہے.عورت معاشرے کی روح ہوتی ہے ، اِنہی سے سماج میں بہترین نسل جنم لیتی ہیں اور کسی بھی سماج کے نوجوانوں کی شخصیاتی پہچان کو قائم کرنے میں عورت کا ایک بہت بڑا کِردار ہوتا ہے۔لیکن اس کے برعکس معاشرے میں ہمیشہ منفی رحجانات پھیلا کر ہمیں اندرونی طور پر توڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اگر بلوچ عورتوں کی تاریخ میں حقائق اور بہادری کی داستانوں کو پڑھیں تو وہاں ہمیں بہت ساری بہادری کی اعلی مثالیں ملتی ہیں ۔بلوچ معاشرے کی تاریخ میں عورت ہمیں ہر جگہ طاقتور نظر آتی ہے لیکن اب ایک پلان کے تحت بلوچ عورتوں کو معاشرے کے ہر ایک عمل سے دور رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہی کیونکہ عورت ایک ایسی طاقت ہے جو پورے قوم کو طاقت بخشتی ہے۔اگر بلوچ قومی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو ہر ادوار میں کریمہ جیسی ،بانڑی جیسی کردار زندہ ہوتے رہتے ہیں بلوچ قوم کی صدیوں پرانی تاریخ خواتین کی لازوال جدوجہد سے بھری پڑی ہے۔ بلوچ خواتین نے سماج سے لیکر بیرونی یلغارکے خلاف مزاحمت تک مردوں کے شانہ بشانہ جدوجہد کی ہے۔أج بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے بلوچ عورتون کو قتل کرنا ان کی بے حرمتی کرنا روز کا معمول ہو گیا ھے. آج بلوچ عوام میں جو نفرت و غصہ ہے یا نوجوان اشتعال انگیزی کی جانب جانے پر مجبور ہورہے ہیں ان سب کی وجوہات ایف سی، آرمی اور سیکورٹی ایجنسیز کی جانب سے اس طرح کے نفرت انگیز حرکات ہیں    بلوچستان پچھلے دو دہائیوں سے سلگ رہا ہے۔ پہلے لاپتہ کرنے کا عمل شروع کیا گیا پھر مسخ شدہ لاشوں کا پھینکا شروع کر دیا گیا جب بات یہاں نہیں بنی تو اجتماعی قبروں میں بلوچوں کو دفنایا گیا پھر جعلی مقابلوں میں قتل کرنا شروع کر دیا گیا اور یہ تمام پالیسیاں آج بھی کسی نہ کسی صورت میں جاری ہیں اور اب ان میں ایک اور اضافہ کرکے بلوچ عورتوں کو ٹارگٹ کرنا شروع کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ دنوں تاج بی بی کا اس طرح بے رحمانہ طور پر قتل انہی مظالم کا تسلسل ہے جو عرصہ دراز سے بلوچستان میں جاری ہیں۔ تاج بی بی کو راہ چلتے ہوئے سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں نے فائرنگ کرکے یہ ثابت کر دیا ہے کہ بلوچستان میں انہوں نے اپنی الگ جبر پر مبنی حکومت قائم کر لی ہے جو جسے چاہئیں قتل کرے جسے چاہے لاپتہ کریں، حالیہ دنوں بلوچستان میں لاپتہ افراد کی تعداد دگنی ہو چکی ہے، آئے دن درجنوں افراد کو اٹھا کر غائب کیا جاتا ہے جس کا سلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ بلوچستان میں ایسے حالات بنا دیے گئے ہیں جہاں ہر انسان اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتا ہے.تاج بی بی نہ پہلا اور نہ ہی آخری واقعہ ہے۔ جب تک بلوچ پاکستان سے نجات حاصل نہیں کریں گے یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا۔تاج بی بی,شاہینہ شاہین،ملک ناز،کلثوم سمیت تمام بلوچ جو کہ اس سے پہلے بے دردی سے قتل کئے گئے ہیں اس کا نہ صرف ذمہ دار بلکہ قاتل بھی صرف اور صرف مقبوضہ ریاست پاکستان ھے۔


Post a Comment

أحدث أقدم