گوادر خواتین ریلی بلوچ قومی تہذیب کے زندہ رہنے کا ثبوت

Image 

ویسے تو گوادر میں کئی برسوں سے پانی اور بجلی کے لئے احتجاج ہوتے آرہے ہیں اور ماہیگر بحر بلوچ( بحیرہ عرب) میں غیر قانونی ٹرالرنگ کے خلاف سراپا احتجاج رہے ہیں مگر پچھلے کیء دنوں سے اپنے مطالبات کے حق میں بچے نوجوان بوڑھے سب اس امید کے ساتھ دھرنا دے رہے ہیں کہ شاید ہمیں ہماری شناخت مل جائے ہم سے صبح اور شام یہ سوال نا کیا جائے کہ کدھر جا رہے ہو؟ کہاں سے آ رہے ہو؟ ہمیں سکون کے ساتھ بارڈر جانے دیں اور سمندر میں شکار کرنے دیں تاکہ ہم بھی دو وقت کی روٹی کھا سکیں۔ہر شخص ایک الگ داستان لے کر آیا ہے- سمندر میں ٹرالنگ، فوجی چیک پوسٹوں پر عوامی تذلیل، لاپتہ افراد، سرحدی کاروبار کی بندش، پانی بجلی کا بحران اور دیگر مسائل پر لوگ اپنے غم وغصے کا اظہار کررہے ہیں یہ گوادر میں احتجاجوں کا پہلا دور نہیں اور انتظامیہ کی غیرسنجیدگی سے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ یہ آخری احتجاج بھی ثابت نہیں ہوگا۔گوادر میں عوام پر یہ ظلم کئی سالوں سے چلا آ رہا ہے لیکن سب آواز اُٹھانے سے ڈرتے تھے۔ ایسا نا ہو کہ ہمیں یا ہمارے خاندان کو کچھ کر دیں لیکن اب سب بیدار ہوچکے ہیں روز روز کے ڈر ڈر کے جینے سے اب سب میں شعور اور جذبہ پیدا ہوچکا ہے سب اپنا حق مانگ رہے ہیں کفن پوش جہد کاروں اور بچوں کی کامیاب ریلی اور احتجاجی مظاہرے کے بعد خواتین ریلی نے بلوچستان کی سیاسی جدوجہد کی تاریخ کو ایک نئے موڑ میں داخل کردیا ہے گوادر کی خواتین ریلی نو آبادیاتی نظام سے نفرت اور بلوچ سیاسی شعور کی مثال ہے آور قومی تہذیب کی زندہ رہنے کا ثبوت ہے۔ آج گوادر کی عوام مسائل پریشانیوں تذلیل اور بربریت کی چکی میں پس کر تنگ و بیزار ہو چکی ہے اور انقلابی حالات کا پیش خیمہ ہے کہ آج کی بلوچ عورت اپنی چادر کے پلو میں اپنا سب کچھ باندھ کر اپنے جائز انسانی حقوق اور اطمینان کی سانس لینے کے لئے سراپا احتجاج ہیں .گوادر میں عورتوں کا احتجاج ایک انقلاب بن کر ابھرا ہے اس انقلاب کو استحکام اور طاقت دینے کے لیے پوری بلوچ قوم کی مزاحمت کی ضرورت ہے۔ تب جا کر اس مزاحمت کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا اس عظیم تر کاروان کی منزل اتحاد جدوجہد اور یکجہتی ہے اس لیے ہم سب کو ایک بن کر آواز اُٹھانا چائیے۔ اگر ہم الگ الگ آواز اُٹھائیں گے تو ہماری آواز کو دبا دیا جائیگا کسی نہ کسی طریقے سے۔ اگر ہم سب ملکر ایک ساتھ ایک آواز بن جائیں گے تو ہماری چیخیں کرسی والوں کی نیند اُڑا دیں گی۔عورت معاشرے کی روح ہوتی ہے جب ہم بلوچ سماج کی ارتقائی عمل کو دیکھتے ہیں تو بلوچ شیرزالوں کی بہت سی تاریخی مثالیں ملتی ہیں، جہاں پدرشاہی سماج کے ہوتے ہوئے بلوچ قوم کے عظیم ماؤں نے اپنی شناخت کو قائم رکھا۔ آج اِنہی شیرزالوں پر پوری قوم فخر کرتی ہے۔اگر بلوچ عورتوں کی تاریخ میں حقائق اور بہادری کی داستانوں کو پڑھیں تو وہاں ہمیں بہت ساری بہادری کی اعلی مثالیں ملتی ہیں گوادر میں عورتوں کے احتجاجی ریلی نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے بلوچ عورتیں میدانِ جنگ ہو یا زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو کسی سے کم نہیں ہیں۔ہمیشہ بہادری کے ساتھ مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی رہی ہیں ۔بلوچ قوم ایک ہی کارواں ہے چاہے وہ مرد ہو یا عورت ہم سب کو اپنے اس کارواں کو منزل تک پہنچانا ہے یہ تبھی ممکن ہے جب سب ایک آواز بن جائیں ایک ساتھ ملکر بلوچستان میں ہو رہے ہر ایک ظلم کے خلاف آواز اُٹھائیں۔

Post a Comment

أحدث أقدم