اتھارھ فروری توتک میں ایک خونی آپریشن کی تلخ یادیں




گیارہ سال قبل 18 فروری 2011 توتک کا ایک بدترین دن ایک ایسا سیاہ دن جب بے رحم فوج نے ایک خونی آپریشن کیا چاروں طرف بس چیخ او پکار ہر طرف دھواں ہی دھواں ایک ایسا واقعہ جو قیامت کا منظر پیش کر رہا تھا ۔اس خونی آپریشن کے ذریعے 2 افراد نعیم اور یحیٰی قتل جبکہ محمد رحیم خان، عتیق الرحمٰن، خلیل الرحمٰن، وسیم، ندیم، آفتاب، فدا، ڈاکٹر ظفر، آصف، عمران، ارشاد، مقصود، ڈاکٹر طاہر سمیت 17 افراد کو فوج نے اٹھاکر غیر قانونی و غیرانسانی زندانوں میں قید کرکے جبری گمشدگی کا شکار بنادیا جن میں ایک نوجوان مقصود ایک نوجوان کو 16 جولائی 2011ء میں قتل کرکے اس کی مسخ لاش پھینک دی جب کہ دیگر سولہ افراد کی کوئی خبر نہیں کہ وہ ابھی تک ریاستی عقوبت خانوں میں مقید ہیں یا انہیں اسی علاقے سے 25 جنوری 2014ء میں دریافت ہونے والے اجتماعی قبروں کی نظر کیا گیا۔گھنٹوں تک جاری رہنے والی آپریشن میں گاؤں کے تمام مرد افراد کو ایک جگہ جمع کرکے فورسز اہلکاروں نے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا اور خواتین اور معصوم بچوں کو گھروں سے نکال کر تمام گھر جلا دیے ۔ توتک سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے عالمی انسانی حقوق کے ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی ایک ہنگامی اپیل جاری کی تھی جبکہ لواحقین کی جانب سے مختلف اوقات میں مظاہرے کیئے جاچکے ہیں لیکن تاحال مذکورہ افراد بازیاب نہیں ہوسکے ہیں۔،2014 میں توتک کے علاقے مژی سے اجتماعی قبریں ملی تھی ان قبروں سے کل ایک سو انہتر لاشیں برآمد ہوئیں، جن کی حالت اس قدر خراب تھی کے بعض کی صرف باقیات (ہڈیاں) ہی رہ گئی تھی، توتک میں اجتماعی قبریں ملنے سے لاپتہ افراد کے لواحقین کی تشویش بڑھ گئ ہے کہ ان کے پیارے زندہ ہے یا انہی لاشوں میں شامل تھے۔18 فروری 2011 توتک ملٹری آپریشن ایک انسانی المیہ ہے ایسے ھزاروں واقعات بلوچ تاریخ میں قلم بند ہیں جہاں دشمن نے ظلم کی انتہا کر دیاگر اقوام متحدہ سمیت عالمی قوتوں نے ریاستی وحشت و بربریت پر اسی طرح آنکھیں موند لیں تو پاکستان کے ہاتھوں بلوچ سمیت مظلوم قوموں کی نسل کشی میں نئی شدت آتی رہے گی اور توتک جیسے ان گنت واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔


Post a Comment

أحدث أقدم