آخر
اپنے مادری وطن سے کوئی اتنا پیار کیسے
کرسکتا ہے کہ اس کی ہر آواز پر جان قربان
کرنے کیلئے ہر وقت تیار رہنا یقیناً یہ
عشق کی انتہا ہی ہے، جو زندگی جیسے عزیز
شئے کو قربان کرنے سے بھی پیچھے نہیں ہٹتا۔
اگر اسے اپنے حیات کے عظیم مقصد کے حصول
کیلئے جان کا نذرانہ پیش کرنے کی ضرورت
ہو تو وہ اپنی زندگی کو قربان کرنے میں
اپنی سعادت سمجھتا ہے۔یہ اپنے وطن سے عشق
ہی تو ہے جس نے دلجان جیسے ایک دلیر بیٹے
کو اپنے گود میں پال کر بڑا کیا، پتہ نہیں
وہ کب سے وطن کے عشق میں اتنا گرفتار ہوچکا
تھا اور ایسا عشق کہ جسکی کی کوئی مثال
ہی نہیں ۔دلجان سیاسی اسٹیج سے جنگ کی طرف
اس لئے گیا تھا کہ جنگ ہی وہ راستہ تھا جس
میں منزل دکھائی دینے لگی تھی، جہاں قوم
و وطن پر ظلم کا بازار گرم ہو وہاں دلجان
جیسے وطن زادے پیدا ہوتے ہیں۔ وہ قوم و
وطن سے محبت اور اپنی بہادری سے اپنے مادر
وطن کے لیے لڑتے ہیں لمہ وطن کو اپنے ایسے
جانبازوں پر فخر ہوتا ہے جو ہر آسائشوں
سے بے غرض وطن پر مر مٹنے کو اپنا اولین
فرض سمجھتے ہیں ۔اور یہی انقلابیوں کی
تاریخ ہے بلوچ قومی تحریک میں وطن کی آزادی
کے لئے جان نچھاور کرنے والے وطن زادے اور
شہیدوں کی ایک طویل فہرست ہے شاید انکو
بیان کرنے کے لئے ایک کتاب بھی کم پڑے۔۔وطن
کی پکار پر لبیک کرنے والوں میں سے شہید
بالاچ مری جس نے وطن کی خاطر دنیا کی سب
ہی عارضی خواہشات کو ٹکرا کر وطن کے لئے
پہاڑوں میں زندگی گزار کر موت کو گلے لگا
لیا، شہید قمبر چاکر،شہید رضا جہانگیر،
شہید الیاس نظر ،شہید سنگت ثناء ،شہید حق
نواز ، شہید نثار ،شہید امیرالملک اور
مجید برگیڈ میں شامل سب ہی فدائی شہید
جنرل اسلم بلوچ کی کاروان کے سپاہی اس وطن
کے وہ سپوت ہیں جنہوں نے تحریک آزادی کو
مضبوطی اور کامیابی سے ہمکنار کیا۔وطن
کی محبت دنیا کی عظیم ترمحبتوں میں شمار
ہوتی ہے ،وطن کی محبت کے آگے کسی دوسری
چیز سے بھی محبت بے معنی ہوتاہے کیونکہ
وطن ہم سے ہے اور ہم وطن کے لئے ہیں ہم وطن
کے لئے بنے ہیں ہمیں اسی کے لئے جینا اور
مرنا ہے۔آج غلامی کی زنجیروں میں جکڑا
ہوا وطن اپنے وطن زادوں کو پکار رہا ہے
کہ “من ماتءَ تہی منا آجو بکن۔دیکھو کہ
کس طرح سے ظالموں نے ظلم کی انتہاء کی ہے
جہاں قبرستان آباد اور گھر ویران ہیں،
اسکولوں میں فوجی بستے ہیں، اور وطن کے
بچے زندانوں میں قید ہیں ، جہاں والدین
کو بچے نصیب نہیں ہوتے ، جہاں سہاگن بیوہ
کی زندگی گزارتی ہے، بچوں کو یتیم اور
لاوارث کیا جاتا ہے ،گھروں کو جلا دیا
جاتا ہے ظلم اور درد سے بھرا وطن اپنے وطن
زادوں کو پکاررہا ہے۔وطن کے دیوانے، وطن
سے بے پناہ محبت کرنے والے جب وطن کی پکار
پر اپنا جان ومال وطن کے لئے نچھاور کرتے
ہیں تو وطن کو یہ محسوس ہونے لگتا ہے اب
دنیا کی کوئی بھی طاقت مجھے میری آزادی
حاصل کرنے سے نہیں روک سکتی کیونکہ میرے
وارث، میرے “سرمچار “ ایک مضبوط چٹان کی
مانند ہر قوت کا مقابلہ کرنے اور اسکو
شکست فاش دینے کے لئے تیار ہیں۔ آج وطن کو
ہر ایک کی ضرورت ہے اور ہر بلوچ کا فرض ہے
کہ وہ وطن کی آزادی کے لئے اپنا کردار ادا
کرے۔
إرسال تعليق