گوادر مسائل کا گڑھ بن چکا ہے یہاں کے لوگ انتہائی پریشانی و کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارہے ہیں گوادر کو عرصہِ دراز سے پاکستانی حکام مستقبل کے دبئی اور سنگاپور کی صورت پیش کرتے رہے ہیں ـ فوج کے مضبوط کنٹرول کے باعث گوادر کے عوام اس جھوٹے پروپیگنڈے پر پیچ و تاب تو کھاتے رہے لیکن عملی طور پر اپنے مسائل و مشکلات پر خاموش رہے ۔اج بلوچ گوادر میں غیر قانونی ٹرالرنگ، فوجی چیک پوسٹوں پر عوامی تذلیل، سرحدی کاروبار کی بندش کے خلاف اور دیگر مطالبات کی حق میں احتجاج کر رھے ہیں ریاست پاکستان اگر بلوچ کو غلام سمجھتی ہے تو ہمیں غلامی قبول نہیں بلوچستان بلوچ کی سرزمین ہے، آپ اس کے مالک سے پوچھتے ہو کہاں سے آ رہے ہو۔ گوادر میں بہت ترقی ہو رہی ہے،اداس اکیلے ساحل پہ بند ر گاہ بن جانے سے رونق بڑھ گئی ہے فائیو اسٹار ہوٹل بن رہے ہیں عالی شان بنگلے بن رہے ہیں پر جو اس سر زمین کے اصل حقدار ہیں جن کا یہ ساحل تھا جن کا سمندر تھا اور ان کو اس گوادر سے بہت پرے دھکیل دیا گیا ہے سمندر کے مالک اج پانی کی بوند بوند کیلیے سراپا احتجاج ھیں ۔گوادر کی عوام کا قصور صرف اتنا ھے کہ انھوں نے ریاستی مظالم کے خلاف سر نھیں جھکایا جس کی پاداش میں عوام کو بنیادی سہولیات زندگی سے محروم رکھا جا رہا ھے۔ہم سمجھتے تھے کہ جب گوادر میں پورٹ بنے گا تو یہ پورٹ ہمیں صاف پانی ، بجلی ، روزگار ، دے گا۔ہمیں یہ نہیں معلوم تھا کہ گوادر پورٹ کی تعمیر سے ہمیں صرف یہ سوال ملے گا کہ کہاں سے آرہے ہو اور کہاں جارہے ہو۔گوادر کی عوام پانی،بجلی ، تعلیم اور روزگار مانگتے ہیں جو ہر ایک انسان کا حق ھے کیا اپنا حق مانگنا غداری ھے ؟ہماری سادہ لوح عوام کو یہ نہیں پتہ کہ گوادر جو سی پیک کی ماتھے کا جھومر ہے وہاںکے عوام کو بنیادی سہولیات تک دستیاب نہی ہم پچھلے20 سالوں سے گوادر کی ترقی کا راگ الاپتے حکمرانوں کو سن رہے ہیں لیکن یہ ترقی نہیں استحصال ہے۔گوادر پورٹ سے نہ پانی ملا نہ بجلی نہ روزگار اگر کچھ ملا ہے تو وہ فوجی چیک پوسٹ ہیں۔امتیاز رفیع بٹ کے بقول کورونا کے بعد بڑی معیشتوں کی بحالی کے ساتھ، گوادر دوبارہ عروج کی جانب گامزن ہے” بات عروج کی تو ٹھیک ہے مگر عروج معیشت کا نہیں بلکہ مقامی لوگوں کی زندگی کے بنیادی سہولیات یعنی پانی، صحت، تعلیم اور روزگار کو چھیننےکا۔
إرسال تعليق