ریاست پاکستان نے ہماری آزادی چھین کر بلوچستان پر ستائیس مارچ انیس سو اڑتالیس کو زبردستی قبضہ کرکے بلوچستان کو پاکستان میں شامل کیا تھا برطانیہ کی برصغیر سے انخلاء کے بعد غیر فطری ریاست پاکستان کو وجود دینا تاریخ کا سیاہ باب ہے.ستاءیس مارچ کی ظالمانہ روشِ پاکستان کے عوض بلوچ پچھلے چہتر سالوں سے بربریت کا شکار ہے.انیس سو اڑتالیس کے بعد سے لیکر آج تک بلوچ قوم کو ایک غیر یقینی صورتحال کا سامناہے. بلوچ سرزمین پر قبضہ کسی بھی صورت جاٸز نہیں بلکہ ایک عالمی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہےغلامی انسانی روح کو بھی اسیر کردیتی ہے جس کے خلاف جدوجہد ہی ہمیں جسمانی اور ذہنی طور پر مضبوط کرسکتی ہیں ۔قومی غلامی کسی بھی قوم کے لیے اس سے قومی زندگی سلب کرنے کے مترادف ہے ۔ایک غلام قوم کے پاس کچھ بھی باقی نہیں رہتاہے۔ وہ قوم اپنی زبان، اپنی ثقافت، اپنی اقدار و روایات پر کاربندنہیں رہ سکتا ہےآج کے دورمیں قومی غلامی، قومی موت کے مترادف ہے۔ آزادی ایک ایسی شئے ہے جسے حاصل کرنے اور برقرار رکھنے کے لیے لوگ سروں ۔کا نذرانہ پیش کرتے ہیںطاقت کا بے دریغ استعمال کرکے مظلوم قوموں کی حق خود اختیاری اور آزادی کو سلب کرکے ان کی ہزارہا سالہ قدیم تاریخ و تہذیب کو مسخ کرتا ہے۔آج بلوچ قتل ہو رہاہے۔ بلوچ کے گھر بار جلائے جارہے ہیں۔ بلوچ نے جلاوطنی کی راہ اختیارکی ہے۔ یہ سب جدوجہدکے حصے ہیں۔ یہ سب اپنی قومی شناخت، قومی بقا، قومی زبان کے لیے ہے۔ یہ جدوجہد اس سیاہ دن کے خاتمے کے لیے ہے۔
بلوچوں کیے ساتھ ساتھ پاکستان میں مذہبی اقلیت بھی مسلسل ریاست اور اس کے حواریوں کے نشانے پر رہے ہیں۔ پاکستان میں ہندوؤں کی تعداد مسلسل گھٹتی جارہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں ہندوؤں کو مذہب تبدیل کرنے کیلئے مجبور کیا جارہا ہے ان کی بیٹیوں کا زور زبردستی مذہب تبدیل کرکے ان کی شادی مسلمان لڑکوں سے کرائی جاتی ہیں ۔ اس کی کئی مثالیں میڈیا میں بھی سامنے آ گئی ہیں۔ اسی طرح عیساؤں کو بھی نشانہ بنانا ایک معمول بن چکا ہے۔بلوچ نے تاریخ ساز جنگیں لڑیں لیکن ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کی قیام ہماری غلامی کی وجہ بن گئیں پاکستان نے بلوچ وطن پر بلوچوں کی مرضی کے بغیر جبراً قبضہ کر کے اسے اپنی کالونی میں تبدیل کردیا۔پاکستان کا قیام اور بلوچستان پر پاکستانی قبضہ تاریخ کا بہت بڑا المیہ 14اگست 1947 کو جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے دنیا مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے عذاب سے دوچار ہے جو اقوام پاکستان کے قیام میں اس کے ساتھ تھے آج پاکستان نے انھیں اقوام پر ظلم اور جبر روا رکھا ہے بنگالی کی قسمت اچھی تھی کہ وہ آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا مگر سندھی اور پشتون سمیت دیگر محکوم اقوام آج تک اس ریاست کا ظلم برداشت کرتے آرہے ہیں بلوچ قوم نے پاکستان کے قبضے کے پہلے دن سے ہی اس کی مزاحمت کی اور اس غلامی کو تسلیم نہیں کیا اور جبراً سلب کی ہوئی اپنی آزادی کو دوبارہ حاصل کرنے کیلئے آج تک لازوال قربانیاں دیتی آرہی ہے آج بلوچ قوم نہ صرف اپنی بلکہ عالم انسانیت کی دفاع کا جنگ لڑرہا ہے۔پاکستانی ریاست کے سیاہ کارنامے صرف بلوچ قوم تک محدود نہیں ہیں بلکہ یہ خطہ اورپوری دنیا پاکستان کے شر سے محفوظ نہیں ۔یہ حقیقت عالمی برادری کے سامنے عیاں ہونا چاہیے کہ پاکستان نہ صرف بلوچ بلکہ اس خطے اورپوری دنیا کے لئے ایک موذی مرض ہے
تین ملین بنگالیوں کے قتل عام پر دنیا کی خاموشی نے پاکستان کو بلوچ نسل کشی پر بھی عالمی قوانین سے مستثنیٰ ہونے کا اشارہ دیا ہے۔ یہ ایک افسوسناک امر ہے۔متحد ہوکر جبری الحاق کے خلاف عالمی برادری کو ایک واضح پیغام دیا جاسکتا ہے کہ بلوچ قوم دنیا کے آزاد اقوام کی طرح ایک الگ قوم ہے، جس کی اپنی جداگانہ شناخت جغرافیہ زبان اور تاریخ ہے۔27مارچ 1948 سے قبل بلوچستان ایک آزاد و خود مختیار ریاست تھی، جس کی اپنی پارلیمنٹ اور انتظامیہ تھی۔27مارچ 1948کوریاست نے بغیر کسی آئینی و اخلاقی جواز اور بلوچ پارلیمنٹ کے موقف اور بلوچ عوام کی رائے کو نظر انداز کرتے ہوئے فوج اتار کر بلوچ وطن پر اپنا قبضہ کر کے ان سے ان کی آزادی چھین لی۔اپنے مادر وطن پرقبضے کے پیچھے ہونے والی ناانصافی کی وجہ سے بلوچ عوام کو اب ایک مشترکہ مہم کی صورت میں اکٹھے ہونے کی ضرورت ہے اور اپنی جمہوری جدوجہد کو تیز کرنا ہوگا جس سے اس قبضہ گیریت کے خلاف مضبوط موقف کارآمد ہو نا کہ ہر آنے والے دن کے ساتھ بلوچ عوام کے اندر اپنے اس پیدائشی حق کا احساس بڑھتا جائے۔
إرسال تعليق