صحت جیسے بنیادی حق سے محروم بلوچستان کی عوام ۔

 

صحت عوام کے بنیادی حقو ق میں سے ایک ہے بلوچیستان کے مختلف علاقوں میں صحت کے سہولیات کا شدید فقدان ہے بلوچستان میں صحت کے شعبے کا کوئی پرسان حال نہیں، یہ صرف کہنے کی بات نہیں بلکہ حقیقت میں ایسا ہی ہے۔

اس حقیقت کا اندازہ سرکاری اعداد و شمار سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ جن کے مطابق بلوچستان میں صرف 30 سے 32 فیصد آبادی کو صحت کی سہولیات میسر ہیں۔ضلع خضدار میں معمولی امراض خاص طور وبائی امراض میں کئی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں ان ہلاکتوں کی بنیادی وجہ بی ایچ یوز میں ابتدائی طبی امداد و ڈاکٹروں اور عملے کی غیر موجودگی ہوتی ہے خاص طور وضع حمل کے کیسوں میں ہلاکتیں زیادہ ہوتی ہے-

ایک رپورٹ کے مطابق دوران زچگی خواتین کی شرح اموات کا تناسب ضلع خضدار میں پورے پاکستان میں سب سے زیادہ ہے یہ وہ تکلیف دہ صوت حال ہے جس کو کنڑو ل کرنے کے لئے محکمہ صحت خضدار کی جانب سے کسی قسم کی اقدام کی ضرورت ہرگز محسوس نہیں کی گئی ہے اور نہ صوبائی حکومت یا محکمہ صحت کی طرف سے اس بارے کوئی اقدام اٹھایا گیا ہے۔گوادر سے 35 کلومیٹر دور نواحی علاقہ پشکان کا بنیادی مرکز صحت (بی ایچ یو) اس دور جدید میں بھی تمام بنیادیی سہولیات سے محروم ہے جس کے باعث اہلیان پشکان صحت کے حوالے سے شدید مشکلات کا شکار ہیں۔بی ایچ یومیں صرف ایک ڈاکٹر دستیاب ہے اور روزانہ سینکڑوں کی تعداد مریض اسپتال کا رخ کرتے ہیں لیکن علاج معالجہ نہ ہونے کے سبب مایوس ہوکر واپس لوٹ جاتے ہیںلیڈی ڈاکٹر کی کمی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ضلع گوادر کے کل 21 میں سے 18 بی ایچ یوز میں لیڈی ڈاکٹر موجود نہیں ہیں۔کم از کم 6 اضلاع ایسے ہیں کہ جہاں سرکاری اسپتال ہی قائم نہیں ہو سکے، ان میں واشک، بارکھان، شیرانی، دکی اور صحبت پور شامل ہیں۔

اسی طرح موسی خیل، دالبندین، ڈھاڈر، بولان، ہرنائی اور آواران سمیت کچھ اضلاع ایسے ہیں جہاں سرے سے کوئی میڈیکل اسپیشلسٹ، گائناکالوجسٹ، چائلڈ اسپیشلسٹ، جنرل سرجن یا فزیشن تعینات نہیں ہے۔

اس ساری صورتحال سے اگر کوئی شدید متاثر ہو رہا ہے تو وہ صوبے کےعوام ہیں۔عوام کا یہی کہنا ہے کہ صحت تو بنیادی انسانی حق ہے مگر وہ حیران ہیں کہ اربوں روپے خرچ ہونے کے باوجود انہیں علاج کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔

ان کا مطالبہ ہے کہ صحت کے شعبے کی بہتری کے لیے جنگی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں خاص طور پر اندرون صوبہ دور دراز علاقوں میں سرکاری اسپتال قائم کیے جائیں جب کہ پہلے سے موجود اسپتالوں کو فعال کیاجائے اور وہاں ادویات کےعلاوہ صحت کی سہولیات پہنچائی جائیں۔



Post a Comment

أحدث أقدم