اگر ہم بلوچ قوم کی تاریخ کو اُٹھا کر دیکھیں تو ہمیں کئی ایسے بلوچ بہادُر بیٹیوں کا نام ملے گا جو اپنی بہادُری اور ہمت سے مردوں کے شانہ بشانہ کھڑے رہے اور بلوچ تاریخ میں امر رہے۔بلوچستان کی تاریخ میں بلوچ خواتین کا بھی اُتنا ہی کِردار رہا ہے جتنا بلوچ مردوں کا رہا ہے
جنہوں نے ہمیشہ مردوں کے شانہ بہ شانہ جدوجہد کرکے اپنے نام بلوچ قوم کے تاریخ میں رقم کی اور آنے والے نسلوں کے لئے سبق آموز بن گئے۔
بلوچ خواتین نے سیاسی، سماجی اور ادبی میدان میں اپنا لوہا منوا کر خطے کے خواتین کے لیے مشعل راہ بنی ہیں۔ریاست نے اپنے تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے بلوچ عورتوں کو گھروں تک محدود رکھنے اور انھیں بلوچ قومی تحریک سے دور رکھنے تمام ممکنہ کوششیں کیں اور بلوچ سماج میں بگاڑ پیدا کرتے ہوئے صنفی تعصب کو ایک نیا رنگ دیا گیا۔ بی ایس او نے روز اول سے بلوچ قومی تحریک میں خواتین کے کردار کوپرکھتے ہوئے انھیں صف اول میں شامل کرکے ریاستی بیا نیے کو مسترد کیا اور بلوچ خواتیں آج تک اِس ظلم و ستم کے خلاف ایک آہنی دیوار بن کر کھڑی ہوئی ہیں اور بلوچ قومی تحریک میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔۔ آج بلوچ عورتیں دنیا کی تمام محکوم قومیں اور ظالم کے خلاف جدوجہد کی اعلی مثال بن چکی ہیں آج ایک ایسی ہی عظیم مثال بن کر شاری بلوچ ہمیشہ کے لئے امر ہو گئیں
قبضہ گیر دُشمن اور ان کے سامراجی آلہ کار چین کے خلاف فدائی شاری بلوچ کی قُربانی نے بلوچ مسلح مزاحمت کو ایک نئی جہت فراہم کی جو بلوچ سماج اور دنیا کے مظلوم اقوام کے لئے ایک رول ماڈل بن گئی ہیں۔کراچی میں اپنی جان کا نذرانہ دے کر شاری بلوچ نے چائنیز شہریوں کے منی بس کو حملے کا نشانہ بنایا حملے کی ذمہ داری بلوچستان میں سرگرم بلوچ عسکریت پسند مسلح تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے مجید برگیڈ نے قبول کی جس میں تین چینی شہری ہلاک ہو گئے ۔شاری بلوچ کی عظیم قُربانی پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کو “گودیِ وطن” کے خطاب سے نوازا گیا ہے بلوچ لبریشن آرمی اکثر خودکش حملوں میں چائنیز نیشنلز اور پاکستانی فورسز کو نشانہ بناتی رہی ہے جبکہ کسی خاتون ممبر کی جانب سے یے پہلا خودکش حملہ ہے۔بلوچ نوجوان اور قوم دوست حلقوں میں یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ چین کے منصوبے بلوچستان میں انہیں اقلیت میں تبدیل کرینگے۔بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں چینی منصوبوں پر وہاں کے مقامی لوگ ناخوش ہیں اور عرصہ دراز سے سراپا احتجاج ہیں۔ شاری بلوچ کا تعلق بلوچستان کے ضلع کیچ سے ہے وہ اسکول ٹیچر تھیں شاری بلوچ دو سال قبل مجید برگیڈ میں شامل ہوگئی تھی-شاری بلوچ نے زولوجی میں ماسٹرز اور تعلیم کے شعبے میں ایم فل کر رکھی تھی شاری بلوچ کے دو بچے ہیں جبکہ انکے شوہر ہیبتان بشیر ایک سرجن ہیں-چھ ماہ پہلے وہ اپنے شوہر کے ساتھ کراچی منتقل ہوئی تھی اور کراچی یونیورسٹی سے ایم فل کررہی تھی ۔ ان کا والد بلوچستان یونیورسٹی تربت کا رجسٹرار رہے ہیں ان کا ایک بھائی تحصیلدار ہے ایک بھائی ڈپٹی ڈائریکٹر ہے ۔جلا وطن بلوچ صحافی صدیق آزاد بلوچ کی نواسی تھیں۔ایک پڑھی لکھی اور باشعور عورت کا یہ عمل ریاست کے لیے سوچنے کا مقام ہے کہ آخر وہ کیوں اس راہ میں نکل پڑی
اگر پاکستان نے بلوچوں کی آواز نہیں سنی تو یہ اقدامات مزید شدت اختیار کر لیں گے اور چین کو بلوچستان میں بلوچ قوم کی مرضی و منشاء کے برخلاف اپنے منصوبوں سے دستبردار ہونا چاہیے۔
إرسال تعليق