مزاحمت آزادی کی بنیاد رکھنے کا آلہ

بلوچ کی مزاحمتی تاریخ صدیوں سے جاری ہے، حمل جئیند، نواب محراب خان،بلوچ خان، اکبر بگٹی، بالاچ مری، بلوچ مزاحمت کی اعلی مثالیں، جنہوں نے قوم کو زندہ رکھنے کے لیے عیش و عشرت کی زندگی کو خیرباد کہہ کر جام شہادت اور مزاحمت کی تاریخ رقم کی. بلوچ ہر دور میں، ہر ظالم کے سامنے سینہ سپر رہ کر تاریخ رقم کرتا رہا ہے اور رہے گا ۔آج کراچی سے تربت، شال سے قلات، خضدار سے آواران ہر جگہ موضوع بلوچ قومی تحریک اور بلوچ مزاحمت کی نئی لہر ہے.بلوچ فرزند جہاں بھی ہیں، اسکی فطرت مزاحمت ہی ہے اور یہ مزاحمت ہمیشہ زندہ رہے گا اور اس مزاحمت کو ایندھن اپنے خون سے بلوچ سرمچار دیتے رہیں گے۔گوادر کی نیلگوں سمندر سے لیکر دامان چلتن تک یا پھر شور پارود سے لیکر ہرنائی کی تلاروں تک دشمن کے سر پر لٹکتی خوف کی تلوار یہی مسلح جدوجہد رہی ہے۔ایک تاریخی مزاحمت میں بلوچ وطن کے فدائین نے قومی مزاحمتی جنگ کو ایک نئی رخ دیا، ہمیں بہت فخر ہے ان نوجوانوں پر جنہوں نے اپنی مادر وطن کے لئے جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔تاریخ کو کوئی دیکھے اور دیکھنے کیساتھ جانے اور سمجھے تو وہ اقوام جنہوں نے جنگیں لڑیں وہ زندہ ہوئے اور وہ اقوام جو خاموش ہوگئے، خوف کا شکار ہوئے وہ نہیں بچ سکے وہ بھی مر گئے فنا ہو گئے۔آج بلوچستان کے عوام ظلم و جبر کی تاریک راتوں کا سامنا کررہے ہیں. ہر روز نت نئے مسائل سے نبرد آزما عوام ماضی کی طرح آج بھی اس قہر کے خلاف سینہ سپر ہیں اور مزاحمت کررہے ہیں. نہ ظلم کے خلاف بلوچ عوام نے سر جھکایا اور نہ ہی مزاحمت کے راستے کو ترک کیا کیونکہ مزاحمت ہی زندگی ہے اور مزاحمت ہی آزادی کی بنیاد رکھنے کا آلہ ہے. جبری گشدگی بلوچستان کا ایک اہم مسئلہ ہے جو گذشتہ پندرہ سالوں سے تسلسل کے ساتھ جاری ہے. بلوچستان کے عوام بشمول طالب علم اس قہر و جبر سے نفرت کرتے ہیں اور آج اس کے خلاف بھرپور اظہار کررہے ہیں۔موجودہ وقت ہی بلوچستان کے مسائل کو آشکار کرنے اور جدوجہد آزادی کو تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔ریاست نے بلوچ سماج کو بانجھ بنانے اور بیگانگی کا شکار بنانے کے لئے جبری گمشدگی، حراستی قتل، مسخ لاشوں، اجتماعی قبریں اور اجتماعی سزا کے تسلسل کو جاری رکھاہوا ہے ۔ لیکن علم و شعور سے لیس بلوچ طالب علم رہنماؤں نے اپنی مزاحمت سے سماج کو بانجھ پن سے دور رکھا۔ سینکڑوں کی تعداد میں جبری گمشدگی، درجنوں رہنماؤں کی شہادت نے بی آزادی کے جذبے کو پروان چڑھایا ۔

Post a Comment

أحدث أقدم