پچھلے کئی سالوں سے بلوچستان میں پانی کا مسئلہ حل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا بلوچستان کے کئی شہروں میں پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں اور جو پانی گھروں میں آتا ہے، وہ پینے کے لائق بھی نہیں ہوتا۔ جانور مویشی انسان سبھی ایک گھاٹ سے پانی پیتے ہیں دوسرے ممالک میں ایسا پانی شاید گندی نالیوں ہی میں نظر آتا ہو گا لیکن ہمارے ہاں ایسا پانی آپ کو بلوچستان کے کئی شہروں میں پینے کے پانی کے استعمال کے لیے نظر آئے گا۔ بلوچستان کی شہری گھروں میں آلودہ پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیںبلوچ سونے کے پہاڑوں، قدرتی گیس اور بے شمار معدنیات کا مالک ہے اور بلوچستان میں معیارِ تعلیم دیکھیے، پانی کا بحران دیکھیے، اسپتالوں میں مریضوں کی حالت دیکھیے، اور دیکھتے رہیں قلم اور کتاب تو دور کی بات یہاں کے لوگوں کو میٹھا پانی اور اچھی خوراک تک میسر نہیں۔ اکثر پچے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔پانی جیسی نعمت بلوچستان کے لوگوں سے چھیننا اور انہیں اس چیز سے محروم رکھنا، یہ کہاں کا انصاف ہے؟پچھلے کچھ دنوں پیرہ کوہ میں قلت آب کی وجہ سے ہیضہ کی وبا پھوٹ پڑی ہے اور بحرانی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔پینے کا صاف پانی نہ ہونے کی وجہ سے 8 مہینے کے بچے سے لے کر 75 سال کے 13 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں یہ پانی کا مسئلہ صرف پیر کوہ تک محدود نہیں پورے بلوچستان کے دیہی آبادی اسی تکلیف سے گزرکر جوہڑوں کا آلودہ اور گندا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ یہ اتنا گدلا اورآلودہ پانی ہوتاہے جو آبادکار کے علاقوں میں ان کے نالیوں میں بہتاہے جہاں ایک ہی گھاٹ سے حیوان اور انسان اکھٹے پانی پیتے ہیں بلوچستان کے کئ اضلاع میں جانوروں کی جلد کی بیماری لمپی اسکن ڈیزیز کی وجہ سے سینکڑوں مویشیاں ہلاک ہوچکی ہیں۔ بلوچستان میں 44 فیصد سے زائد لوگوں کا ذریعہ معاش مویشی پالنا ہے حالیہ چند سالوں میں پے درپے وبائی امراض اور قحط کی وجہ سے بلوچستان کی ںصف آبادی مزید بدحالی کا شکار ہوچکی ہے۔ مویشیوں کو پہنچنے والے نقصان سے اقتصادی پہیہ متاثر ہوا ہے اور تعلیم سمیت تمام شعبوں میں اس کے واضح اثرات پیدا ہوگئے ہیں جبکہ غذائی قلت سے بچوں کی صحت بھی متاثر ہو رہی ہے۔گوادر میں بھی پانی اور دیگر بنیادی سہولیات کے لیے احتجاج روز کے معمول بن چکے ہیں حالیہ دنوں گوادر میں بجلی کا بحران کے ساتھ بارشوں کے بعد بھی پانی کا بحران بدستورجاری ہے مقامی ذرائع کے مطابق گوادر کے اکثر و بشتر علاقوں میں 20/ 20 دنوں تک لوگوں کے نلکے بند پڑے ہیں، لوگ پانی کے بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔یہی حال سیندک اور ریکوڈک کاہے، جہاں کے لوگوں کو پانی اور صحت کی کوئی سہولت حاصل نہیں 27 ہزار کی آبادی کو ایک ڈاکٹر اپروچ کرتاہے بلوچستان میں ایسے علاقے ہیں جہاں لوگوں کو سر درد کی گولی نہیں ملتا، پہاڑوں اور دیہی آبادی میں بود و باش کرنے والے لوگوں کو جب آپ ایک پتہ پیناڈول دیتے ہو تو وہ آپ کا اتنا احسان مند ہوکرآپ کو اپنی مسیحا سمجھ کرخوشی سے پھولے نہیں سماتا۔کہتے ہیں پانی زندگی ہے مگر بلوچستان میں پانی موت کا سبب بن گیا ھے.افسوس بلوچستان کے لوگ اکیسویں صدی میں بھی آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں.
إرسال تعليق