نواب مری 28 فروری 1929 کو نواب مہراللہ خان مری کے ہاں کوہستان مری کے مرکزی مقام کاہان میں پیدا ہوئے۔ آپ کا نام اپنے دادا خیر بخش کے نام کی نسبت پر خیربخش رکھا گیانواب خیر بخش مری نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں کاہان کے ایک مقامی اسکول سے حاصل کیا اس کے بعد سینٹ فرانسز گرائمر اسکول کوئٹہ اور باقی تعلیم ایچی سن چیف کالج لاہور سے حاصل کی۔نواب خیر بخش مری نے پارلیمانی اور ریاست کے تابع سرداروں اور نوابوں کی موقع پرستانہ سیاست کے مقابلے میں بلوچ قومی سیاست اور قبضہ گیریت کے خلاف مزاحمت کا راستہ دکھایا۔ اسی فکر پر عمل پیرا رہ کر ہزاروں بلوچوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے بلوچ قومی آزادی کو جدوجہد کو برقرار رکھا ہے۔ نواب مری نے اپنی پوری زندگی بلوچ قوم کو غلامی کے خلاف لڑنے کا درس دیکر آزادی کی جدوجہد میں زندگی گزاری۔ ان کا “حق توار” سرکل سے درس لینے والوں میں سے بے شمار مشہور جہدکار نکلے۔ ان کی تعلیمات سے بے شمار لوگ متاثر ہوکر بلوچ قومی جہد آزادی کا حصہ بنےخیر بخش مری بلوچ عوام کے لئے ایک ایسی ریاست چاہتے تھے جو ترقی پسند نظریات پر مبنی ہو اور وہاں عوام یکساں طور پر خوش حال ہوں۔ بابا مری بارہا اس بات کو دہراتے تھے کہ ایک ایسی آزادی کا کوئی فائدہ نہیں جہاں عام بلوچ پھر اسی طرح کی صورت حال کا شکار ہو جس طرح کہ آج ہےنواب مری ایک مظلوم اور محکوم بلوچ قوم کے بابا تھے۔ آپ ایک فرد نہیں بلکہ ایک سوچ، فکر اور نظریہ کا نام ہیں بابا ایک فلسفہ کا نام ہے، بابا روشن راہ کا نام ہے، بابا ایک نئی صبح کا نام ہے، بابا اندھیری رات میں ایک روشن چراغ کا نام ہے۔ بابا قوم پرستی کا نام ہے۔ بابا نیشنلزم ہیں اور وہ نیشنلزم بلوچ قوم کا نیشنلزم ہے بابا ایک نظریہ کا نام ہے اور وہ نظریہ بلوچ قوم کا نظریہ ہے۔ بابا بطور ایک لیڈر، رہنماء اور سردار نہیں بلکہ بلوچ قوم کے لئے آپ ایک پیغمبر کی مانند تھے اور ہمیشہ رہیں گےبابا مری جیسے رہنماء سماجی زندگی کی راہیں شناس کرتے ہیں ان کی نظریات و افکار اور خیالات سے معاشرے کے لوگ رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔نواب خیر بخش مری نے اپنی پوری زندگی بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد میں اور بلوچ قوم کو غلامی کے خلاف لڑنے کا درس دیتے ہوئے گزاری لیکن قبضہ گیر ریاست کے حکمرانوں کے ساتھ کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔بابا مری ایک ایسے انسان کی مانند تھے جو ایک طرف محبت کے جذبے سے سیراب ہو اور ساتھ ہی ساتھ ایک بہت بڑا جنگجو بھی ہو وہ نواب بھی تھے درویش اور ملنگ بھی تھے، ایک بہت بڑی طاقت کا مالک انسان لیکن پھر بھی نہایت معصوم اور نرم گو، سخت سے سخت بات بھی انتہائی درجے کے نرم لہجے میں کرتے تھے۔ وہ انسان دوست تھے لیکن دوسری جانب دشمنوں سے انتہائی سخت نفرت بھی کرتے تھے۔بابا دس جون ۲۰۱۴ کو ہم سے رخصت ہوگئے اور اپنے محبوب ماں بلوچستان کی مٹی میں قربان ہو گئے مگر بابا نے ہمارے لیے جو فکر چھوڑا ہے وہ ہمیشہ ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ رہے گا اور یہ پوری بلوچ قوم میں نسل در نسل منتقل ہوتا رہےخیربخش مری نے اپنی پوری زندگی بلوچ قومی آزادی و بلوچ قومی شناخت کے تحفظ میں صرف کردی اور تکالیف و مشکلات کی پرواہ کئے بغیر بلوچ قوم کی خدمت کرتے رہے، بلوچ قوم کی آنے والی نسلیں مرحوم خیر بخش مری کی خدمات و قربانیوں پر فخر کریں گے۔ بلوچ قوم نے بابا کی میت کو آزاد بلوچستان کے جھنڈے میں لپیٹ کر بلوچ شہداء کے قبرستان نیوکاہان (شال) میں سپرد خاک کردی۔
إرسال تعليق