ریاستی عقوبت خانوں میں تیرہ سالہ اسیری کے بدترین دن

 


دنیا میں ہر ایک جنم لینے والا شخص کسی مقصد کو لیکر ہی آتا ہے لیکن عظیم شخصیات صرف وہی لوگ ہی کہلاتے ہیں جو اپنے مقاصد کی خاطر ہی اپنی زندگی کو جیتے ہیں اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے ہمیشہ ہی سماج میں انقلاب برپا کرتے ہیں۔ وہ اتنے عظیم اور مخلص ہوتے ہیں کہ انہیں موت کا خوف، لالچ اور مراعات بھی اپنی طے کردہ منزل سے ایک انچ بھی نہیں بھٹکا سکتا، کیونکہ وہ جس مقصد کے حصول کی خاطر زندگی کو قربان کرچکے ہوتے ہیں وہ انکا نظریہ، ایمان، شعور، انکی سوچ اور انکے کرشماتی کردار کا پہچان ہوتا ہے۔ ذاکرمجید ایک ایسی ہی سوچ ہے جو ہر بلوچ کے پاس ہے اور رہےگا اُس نے بچپن میں ہی اپنا راہ چن لیا تھا وہ جدوجہد کی راہ میں لوگوں کو موبلائیز کرتا اور ایک آزاد ریاست کے بارے میں بتاتا تھاذاکر مجید کی زندگی انقلاب سے وابستہ تھا اس کے ساتھ ساتھ (بی اس او) آزاد کا ممبر تھا اور اس کی مخلصی کی وجہ سے ذاکر جان کو وائس چیئرمن سلیکٹ کیا گیا۔ ذاکر مجید بلوچستان کے کونے کونے میں جاتا تھا کبھی کراچی تو کبھی کوئٹہ کبھی تربت تو کبھی خضدار وہ گھر گھر میں گلی گلی میں جا کر آزاد بلوچستان اور بلوچی کی بات کرتا تھا۔ وہ لوگوں کو آگاہی دے رہا تھا کہ دشمن کیسے اس سرزمین کو نگلنا چاہتاہے۔ کیسے ہمارے ساحل وسائل کو لوٹنا چاہتاہے اور وہ کیسے ہماری جغرافیہ ،شناحت، زبان، اور ہمارےکلچر کو مسخ کر رہاہےذاکر مجید بس دشمن سے آزادی چاہتا تھا، اس لئے وہ اخلاقی طور پر مزاحمتی اور بلوچ سیاست کو سپورٹ کرتا تھا اور اس کے نتائج بھی معلوم تھے کہ زندان اور موت ہے لیکن اُس کو اس بات کا فکر نہیں تھا کیونکہ اس کے ارادے اونچے پہاڑ کی طرح مضبوط تھے وہ ایک ایسے غلام معاشرے سے تعلق رکھتا تھا جہاں بات کرنا ایک عظیم گناہ تھا اس نے غم و رنج دیکھا تھا اور نفرت تھی غلامی سے اور وہ دنیا کے محکوم قوموں کو یہ شعور دینا چاھتا تھا کہ کیسے غلامی کی زندگی سے نکل کر ایک آزاد ریاست قائم کر سکیں، ذاکر علم و زہانت سے لیس ایک باشعور نوجوان تھا، جس نے غم و رنج دیکھا تھا۔ اپنے باپ کے لاش کو بچپن میں اٹھایا تھا۔ جنہیں قاتلوں نے بلوچ کہہ کر مارا تھا۔ سنگت ذاکر ایک پختہ نظریہ رکھتا تھا، جس کو نفرت تھی غلامی سے، اُس غلامی سے جو زبردستی بلوچ قوم پر ٹھونس دی گئی ہے، اُس غلامی سے جو ہماری زبان دود و ربیدگ روایت کلچر تاریخ کو مسخ کرنا چاہتا ہے، ذاکر کہتا تھا کہ اس غاصب کا مطلب ہے ہمارے زمین میں جہاں سے سونا و چاندی اُگلتا ہو، جہاں ہر طرح کا معدنیات دستیاب ہوں، قابض دشمن اس سرزمین کو نگلنا چاہتا ہے، ساحل و وسائل کو لوٹنا چاہتا ہے۔ یہی درس دیتے دیتے پاکستانی آئی ایس آئی نے اسے آٹھ جون دو ہزار نو کو زبردستی اٹھا کر ٹارچرسلوں میں ڈال دیاآج زاکر مجید بلوچ کی جبری گمشدگی کو تیرہ سال کا ایک طویل عرصہ مکمل ہوگیا ہے، تیرہ سال ایک پوری زندگی ہے، جس وقت ذاکر جان کو لاپتہ کیا گیا اس وقت کے بچے اب بڑے ہو کر باپ بن چکے ہیں، موسموں نے کئی رنگ بدلے ہیں، دنیا میں کتنی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، تب سے زاکر جان کے سینکڑوں فکری ساتھی اس جدوجہد کی پر کٹھن راہ میں جام شہادت نوش کر چکے ہیں یا زاکر کی طرح اب بھی پسِ زندان ہیں ۔ ذاکر جان کی جبری گمشدگی کیخلاف گزشتہ تیرہ سالوں سے بی ایس او آزاد سمیت دیگر سیاسی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں احتجاج کرتی رہی ہیں، لیکن ان سب احتجاجوں اور کوششوں سے بڑھ کر انکی ہمشیرہ بانک فرزانہ مجید کی تیرہ سالہ جدوجہد کی داستان ہے۔ وہ بہن جو کبھی اپنے پیارے بھائی کے آنکھوں کا تارہ تھی اور اپنے بھائی کے ساتھ ہر ایک غم اور خوشی کو بانٹتی تھی، وہ آج بھی دنیا کے سامنے اپنے بھائی سمیت ہزاروں لاپتہ بلوچ نوجوان، بزرگ ، خواتین اور بچوں کی بازیابی مطالبہ کررہی ہے۔ بانک فرزانہ مجید نے جس ہمت اور بہادری سے گذشتہ تیرہ سالوں سے اپنا احتجاج جاری رکھا ہوا ہے، وہ آنے والی بلوچ نسلوں سمیت دنیا کے تمام مظلوم اقوام اور بہادر ماوں اور بہنوں کیلئے مشعل راہ بنے گی ۔ زاکر مجید کی بوڑھی اور بیمار ماں جو شاید کبھی اپنے گھر سے بھی باہر نہیں نکلی ہیں جو پچھلے تیرہ سالوں سے زاکر جان کی بازیابی کیلئے کبھی کوئٹہ تو کبھی اسلام آباد میں زاکر جان کی تصویر لیئے اپنے لخت جگر کی راہ ڈھونڈتی پھر رہی ہیں، وہ ہر گز نا امید نہیں ہیں انکو اور ہم سب کو یقین ہے کہ زاکر جان آئیں گے ایک دن وہ ضرور آئیں گے اپنے اماں کیلئے اپنے نظریاتی اور فکری دوستوں کیلئے۔


Post a Comment

أحدث أقدم