تاریخ کے اوراق میں ایک سنہرا نام بابائے قوم نواب محمد اکبر خان



شہید محمد اکبر خان بگٹی 12 جولائی 1927 بروز منگل کو نواب محراب خان کے ہاں بلوچستان کے شہر بارکھان میں پیدا ہوئے، اس کا خاندانی نام اس کے دادا شہباز خان پر رکھا گیا لیکن وہ اپنے دوسرے نام سے زیادہ مشہور ہوا، اس کے والد نے اپنی زندگی ہی میں تعلیم و تربیت کے لیے اُسے سندھ کے معروف اسکالر علامہ آئی آئی قاضی کے سپرد کر دیا تھا۔ آپ نے بنیادی تعلیم اپنے آبائی علاقے ڈیرہ بگٹی سے حاصل کی اور بعد میں لاہور ایچی سن کالج میں داخلہ لیا اور آپ نے اعلیٰ تعلیم لندن کے آکسفورڈ یونیورسٹی سے حاصل کی۔نواب اکبر بگٹی نے تین شادیاں کی تھیں، جس میں سے اس کے تیرہ اولاد تھے جن میں چھ لڑکے اور سات لڑکیاں تھیں، اکبر بگٹی کے فرزندان میں سلیم بگٹی، طلال بگٹی، ریحان بگٹی ، سلال بگٹی، جمیل بگٹی اور شازوار بگٹی ہیں جبکہ لڑکیوں میں دریشاور، نازلی، دردانہ، درین، نازلی، شانازاور فرح ناز بگٹی ہیں ،نواب بگٹی کے پوتوں میں عالی بگٹی، زونگ بگٹی، میر محمد طلح بگٹی، زامران بگٹی، کوہ میر بگٹی، براھمداغ بگٹی ،شاہ زین بگٹی، گوھرام بگٹی اور چاکر بگٹی ہیں۔نواب اکبر بگٹی نے اپنے سیاسی زندگی کا آغاز 1958 کے نیشنل اسمبلی کے ضمنی انتخاب کو جیت کر کیا اور اس وقت کے وزیر اعظم فیروز خان کے دور میں وزارت داخلہ میں اپنا فرائض انجام دیے۔ اس کے بعد ذولفقار علی بھٹو کے دور میں نواب اکبر بگٹی 1973 میں گورنر بلوچستان اور آخر میں نواب اکبر بگٹی محترمہ بے نظیر کے دور حکومت میں 1989 کو وزیر اعلیٰ بلوچستان بنے۔اکبر خان جس نے وقت اور تاریخ کو اپنے تابع کیا، عمر کے آخری حصے تک دراز قد، سفید بال، مونچوں کو تاو دیکر بلوچی ثقافتی چٹائی پر براجمان یہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ تاریخ و سیاسیات کا طالبعلم اکبر بگٹی تھے، جو ہر صبح کی ابتداء عوامی کچاری سے کرتے تھے لوگوں کے مسائل سنے جاتے اور نواب صاحب اور انکے رفقاء حل پیش کرتے رہتے۔

 

نواب اکبر خان بگٹی ایک نہایت رعبدار اور قدآور شخصیت کے مالک تھے۔ وہ اپنے منفرد اندازِ گفتگو، نڈر فیصلوں اور اپنے مضبوط کمیٹمنٹ کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ نواب اکبر خان بگٹی اپنے دو ٹوک موقف کے سبب کئی مرتبہ پاکستانی جابر حکمرانوں کی طرف سے قید و بند کی صوبتیں جھیل چکے تھے۔ ڈاکٹر شازیہ کا ریپ کا واقعہ ہو یا کہ بلوچستان میں غیر مقامی لوگوں کی آبادکاری یا پھر بلوچستان میں پاکستانی فوجیوں کے مختلف ادوار میں کئے جانے والے خوفناک آپریشنز کے ردعمل میں ہمیشہ اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ جب ریاست پاکستان نے ساحلِ بلوچستان پر ترقیاتی ( استحصالی) منصوبوں کا اعلان کیا، تو یہ استحصالی منصوبے بلوچ قوم پرست جماعتوں کے لیے قابل قبول نہیں تھے۔ ماضی میں فیڈریشن کی سیاست کرنے والے نواب اکبر خان بگٹی نے بھی پاکستان کے ان نام نہاد ترقیاتی (استحصالی) منصوبوں کو مسترد کرتے ہوئے ساحل اور وسائل کی حفاظت کے لیے کمر بستہ ہوئے اور مزاحمت کا اعلان کردیا نواب بگٹی نے ایک ایسے وقت پاکستان کے خلاف ہتھیار اُٹھا کر لڑنے کا فیصلہ کیا جب بلوچ نوجوان ایک جذبے کے ساتھ میدان میں موجود تھے اور بلوچستان کی آزادی کیلئے کمر بستہ تھے۔ نواب بگٹی کی بر وقت بہتر حکمت عملی نے بلوچ قوم میں آزادی کے جذبے اور نوجوانوں کے حوصلے مزید توانا کیے۔ انہوں نے ایک ایسی عمر میں پہاڑوں کو اپنا مسکن بنایا جو سب کیلئے مشعل راہ ہیں۔نواب اکبر خان بگٹی تاریخ کے مطالعے اور اپنی سیاسی سفرکے و سیع تجربے سے شعور کی اس منزل پر پہنچ کر جان چکے تھے کہ غاصب اور قبضہ گیر کے سامنے واحد راستہ مزاحمت ہے۔ اس کے سوا باقی راستے ذلالت اور گمنامی کی طرف لے جاتے ہیں انیسو اٹتالیس میں کیے گئے قبضے کو برقرار رکھنے و وسائل کی لوٹ مار کو جاری رکھنے کیلئے ریاست نے اس عظیم بوڑھے بلوچ کو قتل کردیا گیا، جسکی ذمہ داری اس وقت کے ڈکٹیٹر فوجی آمر جنرل مشرف نے قبول کی۔چھبیس اگست کے اس سیاہ دن نے جہاں بلوچ قوم کو ایک عظیم رہنماء سے محروم کیا وہیں پر شہیدوں کے لہو نے بلوچ قوم اور تحریک سے وابسطہ کرداروں کیلئے پنت و نصیحت کے انبار چھوڑے، دشمن کے خلاف مسلسل جہد کو وطیرہ بنا کر جہد جاری رکھنے کا حوصلہ دیا۔




Post a Comment

أحدث أقدم