عقوبت خانہ اور پابند سلاسل شبیر بلوچ




 

شبیر بلوچ بی ایس او آزاد کے مرکزی انفارمیشن سیکرٹری تھے شبیر بلوچ کو پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں نے چار اکتوبر 2016 کو بلوچستان کے علاقے کیچ سے دیگر افراد کے ہمراہ لاپتہ کردیا تھا۔شبیر بلوچ بلوچستان کے ایسے علاقے سے تعلق رکھنے والا تھا جہاں نہ پانی، نہ بجلی، نہ تعلیمی ادارے اور نہ روڈ موجود ہے، اس علاقے سے غربت اور ہزار تکلیفوں سے گزر کر شبیر بلوچ تعلیم حاصل کر رھا تھا اور اپنے حقوق کی بات کرتا تھاشبیر بلوچ کو ان کے اہلیہ کے سامنے دیگر افراد کے ہمراہ حراست میں لیکر لاپتہ کر دیا گیا جس کے بعد ان کی معلومات نہیں ملی۔ اور گذشتہ چھ سال سے شبیر بلوچ کی اہلیہ اور بہن کبھی پریس کلب کے سامنے، کبھی کمیشن کے سامنے احتجاج کررہے ہیں لیکن انہیں آج تک یہ معلوم نہیں کہ شبیر بلوچ زندہ بھی ہے یا نہیں۔شبیر بلوچ ایک پرامن طلبا تنظیم کے رہنما تھے۔ تنظیم نے شبیر بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں نکالیں جبکہ انکی جبری گمشدگی کا کیس انسانی حقوق کے عالمی اداروں میں بھی جمع کرایا ہے۔ لیکن طویل عرصہ گزرنے کے باوجود عالمی ادارے نہ تو شبیر بلوچ کو پاکستانی فورسز کے چنگل سے آزاد کرانے میں کامیاب ہوئے ہیں اور نہ ہی ان کی جبری گمشدگی پر پاکستان جیسی سفاک ریاست کو جوابدہ کیا گیا۔مگر بلوچستان کے ہزاروں سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگی کے باوجود انسانی حقوق کے عالمی ادارے خاموشی کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں اور بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر پاکستان کو جوابدہ کرنے سے قاصر ہیں۔شبیر بلوچ قومی تحریک کے وہ پہلے سیاسی رہنما نہیں ہیں جنھیں جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا بلکہ اس سے پہلے تنظیم کے سابق وائس چیئرمین ذاکر بلوچ کو آٹھ جون 2009 کو مستونگ سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا اور تیرہ سال کا طویل دورانیہ گزرنے کے باوجود تاحال ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اسی طرح تنظیم کے سابق چیئرمین زاہد بلوچ گزشتہ آٹھ سال سے پاکستانی عقوبت خانوں میں اسیری کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بلوچ قومی تحریک کے سرکردہ رہنما ڈاکٹر دین محمد بلوچ سمیت سینکڑوں بلوچ سیاسی کارکنان دہائیوں سے پاکستانی اذیت خانوں میں پابند سلاسل ہیں۔شبیر بلوچ طالب علم رہنما تھے جنہیں بلوچ قومی تحریک آزادی میں شعوری جدوجہد کی پاداش میں ریاستی اداروں نے ان کی اہلیہ کے سامنے جبری گمشدگی کا شکار بنا دیا۔ چھ سال کے طویل عرصے میں شبیر بلوچ کی زندگی کے بارے میں ان کے خاندان کو کوئی اطلاع فراہم نہیں کی گئی کہ وہ کس حالت میں ہے۔ بی ایس او آزاد اور ان کی بہن اور اہلیہ نے شبیر کی بازیابی کے لئے تمام تر پُرامن ذرائع استعمال کئے لیکن صرف دلاسہ دیکر ان کے خاندان کو تسلی دی گئی۔ عملی طور پر ان کی بازیابی کے لئے کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی جو ایک تشویشناک امر ہے۔شبیر بلوچ کی بہن سیما بلوچ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے بھائی کی بازیابی کیلئے ہر ممکن کوشش کی ہے، جہاں کہیں ہمیں کوئی بھی امید نظر آئی ہم نے وہ در کھٹکھٹایا اور فریاد کی، 2018 کو وزیر داخلہ بلوچستان ضیاء لانگو نے ہمیں یقین دہانی کی اسکے بعد گزشتہ سال اسلام آباد میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان سے بھی ملاقات کی تو انہوں نے بھی شبیر بلوچ کی بازیابی کا وعدہ کیا، گزشتہ مہینے پچاس دن ریڈ زون میں گورنر ہاؤس کے سامنے احتجاجی دھرنے پر وفاقی کمیٹی نے ہمارے لاپتہ پیارے لوگوں کی بازیابی کی یقین دہانی کی لیکن شبیر بلوچ اب تک بازیاب نہیں ہوسکے –پاکستان کے عقوبت خانوں میں شبیر بلوچ کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہے کیونکہ شبیر سے قبل سینکڑوں بلوچ سیاسی کارکنان کی جبری گمشدگی کے واقعات رونما ہوئے جنہیں اذیت خانوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد مسخ شدہ لاش کی شکل میں پھینک دیا گیا۔قابض ریاست بلوچ قومی تحریک آزادی کو کاؤنٹر کرنے کے لئے سیاسی رہنماؤں کی جبری گمشدگی اور ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کے جرم کا مرتکب رہا ہے۔ یہ ریاستی ظلم و ستم کی عکاسی کرنے کے لئے کافی ہے۔عالمی اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ شبیر بلوچ سمیت سینکڑوں بلوچ سیاسی کارکنا ن کی جبری گمشدگی جیسے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر پاکستان کو عالمی عدالتوں میں احتسابی عمل سے گزارا جائے۔

Post a Comment

أحدث أقدم