خستہ نظام ڈوبتا بلوچستان



حالیہ سیلاب نے پاکستان کو شدید متاثر کیا بلوچستان سندھ کے پی کے اور وسیب ڈوب گئے کروڑوں لوگبے گھر ہوئے لاکھوں زخمی اور ہزاروں پانی میں ڈوب کر مر گئے ۔تھا لوگوں کے سب جمع پونجی مال مڈی اور جمع شدہ خوراک پانی میں بہہ گئے والدینبچوں کو بھوک پیاس وبائی امرض میں اپنے گود میں دم توڑتے دیکھ کر دعائیں دیتے رہے۔ انسان اتنے مجبور تھے کہ وہ ان حالاتمیں رو نہ سکے پہلی بار تاریخ کے بدترین بارش اور سیلاب نے جو تباہی مچائی اس کا ذمہ دار عالمی ماحولیات کو خراب کرنے والے ممالک ہیں مگر انکاسزا ہمیں بھگتنا پڑ رہا ہے۔پہلے ہی ہم بدترین معاشی کراہسس سے گزر رہے ہیں حالیہ سیلاب نے معیشت کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ایک اندازے کے مطابق پاکستانی معیشت کو 30 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا ہے مگرمعاشی ماہرین کا کہنا ہے پاکستانی معیشت کو ایک سو ارب ڈالر سے زیادہ نقصانات کا سامنا کر پڑا ہے اس مشکل کے گھڑی میںعالمی دنیا کو جس طرح آگے بڑھ کر مدد کرنا چاہیے تھا اس طرح کسی نے مدد نہیں۔سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں مختلف وبائی امراض پھوٹ پڑے ہیں مریضوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے خصوصاً ملیریا، ڈائریا، گیسٹرو اور ہیضے کے مریض اس طرح کے ہزاروں کیسز صرف نصیر آباد ڈویژن میں رپورٹ ہوئے ہیں عالمی ادارہ صحت (WHO) کے ایک اہلکار نے آنلائن جریدے کو بتایا ہے کہ طبی عملے کو آلات کی کمی اور تباہ شدہ صحت کے مراکز کی وجہ سے ان علاقوں میں متاثرہ مریضوں کے علاج و معالجے میں مشکلات کا سامنا ہے۔بلوچستان پہلے ہی زبوں حالی کا شکار ہے صوبائی حکومت اسے مسلسل نظر انداز کرتی رہی ہے،صوبے کے دور دراز علاقوں میں صورتحال ابتر ہے۔بارشوں اور سیلاب سے بلوچستان کے تمام 35 اضلاع متاثر ہوئے بارشوں اور سیلاب سے 323 افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ ان متاثرہ علاقوں میں وبائی امراض پھوٹ پڑنے سے ایک ہفتے کے دوران اسہال، ہیضہ، ملیریا، آنکھوں اور جلدکے انفکیشن، سانس کی بیماروں سمیت دیگر امراض کے 38 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے-حالیہ شدید بارشوں سے پیدا ہونے والے سیلاب کے باعث بلوچستان میں 2 ہزار 859 اسکول متاثر ہوئے جب کہ ضلع لسبیلہ میں سب سے زیادہ 321 اسکول تباہ ہوئے ہیں۔ہزاروں لوگ سیلابی ریلوں سے متاثر ہوئے سیلابی ریلوں بلوچستان کے دوسو پلوں کو بہہ کر لے گیا بلوچستان میں ایریگشن کے بنانے ہوئے ڈیموں کو سیلابی ریلوں نے شدید نقصان پہنچایا۔متاثرین ابھی بھی بے یارو مددگار بیٹھے ہوئے ہیں کوئی ان کا پرسان حال نہیں عوام کو راشن اور ٹینٹ کی ضرورت ہے۔ہماری حکومت کو چاہئے کہ بیرونی ممالک سے جو متاثرین کے جو فنڈز دیے جارہے وہ اس متاثرین پر خرچ ہو غریبوں کو گھر بنا کردیں تاکہ قوم اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکے۔بلوچستان سیلاب میں ڈو ب چکا ہے لیکن میڈیا اورپاکستانی نظام سیاست میں سیلاب اورسیلاب زدگان کا تذکرہ نظرنہیں آتا۔سیلاب کی تباہ کاریاں ناقابل بیان ہیں۔ لیکن بلوچ کی مدد اور بحالی پاکستان کے ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ بلوچستان میں اشیاء خوردنوش نایاب ہوگئے ہیں اور قیمتیں آسمان سے باتیں کررہے ہیں آٹے کی قیمت کہیںزیادہ ہوگیا ہے۔بین الاقوامی انسان دوست تنظیموں کو بلوچستان کے ان لوگوں کو بچانے کے لئے آگے آنا چاہیے جنہیں امداد کی اشد ضرورت ہے۔


Post a Comment

أحدث أقدم