بلوچستان میں گزشتہ دو دہائیوں سے کمسن بلوچ بچوں، نوجوانوں، عورتوں اور بوڑھوں سمیت طالب علموں کو جبری طور پر لاپتہ کرکے خفیہ ٹارچر سیلوں میں قید کرنے اور ان کے مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی میں انتہائی تیزی آئی ہے آخر کب تک بلوچستان کے فرزند لاپتہ کئے جاتے رہینگے؟ کب تک بلوچ جبری گمشدگان کو جعلی مقابلوں میں قتل اور ان کی لاشوں کواجتماعی قبروں میں دفنایا جائے گا؟ کب تک بلوچ مائیں اور بہنیں پریس کلبوں کے سامنے احتجاج کرتی نظر آئیگی؟ بلوچستان میں لاپتہ افراد کا معاملہ ایک انسانی المیہ جنم دے چکا ہے، اس حال میں نشتر ہسپتال سے پانچ سو کے قریب انسانی لاشوں کا ملنا کسی بھی سانحہ سے کم نہیں۔ پنجاب سے غیرمعمولی تعداد میں نامعلوم انسانوں کی لاشیں مل رہی ہیں جہاں ماضی میں بھی بلوچ سیاسی قیدیوں کو ٹارچرسیلز میں رکھا جاتا تھا۔اب بھی خدشہ ہے کہ ملتان کے نشتر میڈیکل کالج سے ملنے والی لاشیں جبری گمشدگان کی ہیں جن کو میڈیکل یونیورسٹیوں کے طالب علموں کو پڑھانے کے لیے مذکورہ ہسپتال کے حوالے کیا گیا تھا۔اس بات کا اعتراف ہسپتال انتظامیہ کی طرف سے کیا گیا ہے کہ یہ لاشیں پاکستان کی سیکورٹی فورسز نے ہسپتال انتظامیہ کے حوالے کی تھیں جن پر زخموں کی وجہ سے انھیں مردہ خانوں میں رکھنا ممکن نہیں تھا اس لیے انھیں پیوٹریفیکیشن کے لیے چھت پر رکھا گیا تاکہ ہڈیوں سے گوشت الگ ہو اور ہڈیوں کو طالب علموں کو سمجھانے کے لیے استعمال کیا جاسکے۔ کیونکہ اس سے قبل لاہور کے اسپتال سے سینکڑوں لاشوںکے ملنے کا انکشاف ہوا ہے جنہیں بعد میں لاوارث سمجھ کر بغیر ڈی این اے کے دفنایا گیا تھا، توتک، دشت سے ملنے والی لاشیں بھی ایسے ہی دفنائی گئی اور غالب گمان یہی ہے کہ ان ملنے والی لاشوں کے ساتھ بھی وہی کیا جائے گا جو پاکستان کا پرانا وطیرہ ہے۔پاکستان کا نام تبدل کرکے مسخستان رکھ دیتے تو صحیح ہوتا کیونکہ یہاں ہر چیز کو آسانی سے مسخ کردیا جاتا ہے۔بلوچستان میں سیاسی کارکنوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے آج ایک بار پھر مسخ شدہ لاشیں پھینکی جارہی ہیں۔بلوچستان کے مختلف علاقوں سے لاشیں ملنے کا سلسلہ جاری ہے۔بلوچستان میں ملنے والی تشدد زدہ لاشوں کا اندراج تو کیا جاتا ہے لیکن ان کی شناخت کا کوئی مؤثر طریقہ کار دستیاب نہیں ہے۔اکثر و بیشتر مسخ شدہ لاشیں لاپتہ افراد کی ہوتی ہیں جنہیں شناخت کے بغیر دفن کیا جاتا ہے جسکی وجہ سے لاپتہ افراد کی لواحقین مزید ذہنی پریشانی کے شکار ہوتے ہیں۔پہلے سے لاپتہ افراد کو قتل کرکے ویرانوں میں پھینکنا “مارو اور پھینک دو” پالیسی کا تسلسل ہے جو گزشتہ کئی عرصے سے جاری ہے مگر عوامی سوچ و فکر کو ایسے گناؤنے عمل سے خوفزدہ نہیں کیا جا سکتا۔ عوامی جدوجہد آزاد سے خائف ریاست بدترین جبر اور ظلم پر اتر آئی ہے مگر یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ عوامی جدوجہد و سوچ کو طاقت سے دبایا نہیں جا سکتا۔جبری لاپتہ افراد کو قتل کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کے ٹارچر سیلوں میں قید تمام لاتپہ افراد کی زندگیوں کو سنگین خطرہ لاحق ہے۔ ایک طرف سے لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں سی ٹی ڈی کے ہاتھوں قتل کروایا جا رہا ہے دوسری جانب ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینک دی جا رہی ہیں جبکہ کئی افراد کو جبری طور پر گمشدہ کرنے کے بعد جھوٹے ایف آئی آر بناکر سی ٹی ڈی کے حوالے کیے جا رہے ہیں۔ ایسے تمام اقدامات سے لگتا ہے کہ ریاست اپنے غیر قانونی و غیر انسانی اقدامات کو وسعت دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔ بلوچستان سے تشدد زدہ لاشوں کی برآمدگی کا سلسلہ سنہ 2008 سے شروع ہوا تھا جب قوم پرست جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنوں کی گمشدگی کے واقعات رونما ہوئے۔ توتک اور ڈیرہ بگٹی سمیت دیگر علاقوں سے اجتماعی قبریں بھی برآمد ہوچکی ہیں۔ ایسی لاشیں اکثر پہاڑی علاقوں سے ملتی ہیں۔ یہ زیادہ تر گلی سڑی اور تشدد کا شکار ہوتی ہیں اور ان کی شناخت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔پاکستان میں انسانی حقوق کے علمبرداروں کی جانب سے بلوچستان میں ہونے والے سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ان کی خاموشی واضح کردیتی ہے کہ وہ بلوچستان میں جاری ریاستی بربریت کی خاموش حمایتی ہے ۔ اس سنگین صورتحال میں دنیا کو بلوچستان میں انسانی زندگیوں کو تحفظ فراہم کرنے میں توجہ دینی چاہیے ورنہ ریاستی بربریت میں مزید شدت آ سکتی ہے۔
إرسال تعليق