اگر بلوچستان میں دیکھا جائے تو انسانیت صرف نام تک رہ چکی ہے، انسانیت کیلئے کام کرنے والوں کا نام ہی نہیں ملتا، جو بھی آواز اٹھاتا ہے دوسرے دن اسکا نام اور تصویر گمشدہ افراد کے لسٹ میں شامل ہوتا ہے اور پھر اسکے بازیابی کیلئے آواز گونجتے ہیں، لیکن آواز اور گرتے آنسوؤں کو دیکھے کون؟ انکو سب نظرانداز کرتے ہیں حالانکہ یہ آوازیں بڑے شہروں میں شور مچاتے ہیں، وہاں میڈیا بھی خاموش ہے،ایک ایسی ہی آواز راشد حسین بھی ھیں ۔متحدہ عرب امارات سے جبری گمشدگی کے شکار و بعد ازاں پاکستان منتقل کیئے جوانے والے بلوچ کارکن راشد حسین کی جبری گمشدگی کو چار سال کا عرصہ مکمل ہونے جارہا ہے تاہم انہیں منظرے عام پر نہیں لایا گیا ہے۔
راشد حسین اس وقت لاپتہ ہوئے جب وہ متحدہ عرب امارات میں مقیم تھے متحدہ عرب امارات کے حکومت نے راشد حسین کو چھ مہینے بعد غیر قانونی طور پر پاکستان منتقل کردیا جہاں وہ تاحال لاپتہ ہے۔ راشد حسین کی بحفاظت بازیابی کیلئے ان کی بوڑھی ماں اور اہل خانہ نے عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے اور احتجاج سمیت تمام پرامن راستے آزمائے ہیں۔ ان کی احتجاج ختم کرنے کے لئے انہیں فوج نے یقینی دہانی کرائی کہ خاموش ہوجائیں تو راشد حسین کو رہا کردیا جائے گا۔ لیکن یہ یقین دہانی محض احتجاج ختم کرنے کا ایک حربہ ثابت ہوا اور دوسرے ہزاروں بلوچوں کی طرح راشد حسین کی بازیابی ممکن نہیں ہوسکی۔
ہے راشد حسین کی گمشدگی بی ایس او کے سینئر رہنما ذاکر مجید کی طرح طویل گمشدگی کی شکل میں سامنے آ رہا ہے۔ یہ یقینا مقامی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے دعویداروں کیلئے ایک سوال اور سوالیہ نشان ہی رہے گا۔ ان کی خاموشی نے پاکستان کی اس جارحیت کو مزید تقویت بخشی ہے اور بلوچ قوم پاکستان کی اس بربریت کا اکیلا ہی مقابلہ کر رہی ہے۔راشد حسین سمیت کئی لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کی بازیابی کی جدوجہد میں سراپا احتجاج ہیں۔ موسموں کی سختیاں اورفوج و خفیہ اداروں کی مختلف حربوں اور دھمکیوں کی پرواہ کئے بغیر سڑکوں اور پریس کلبوں کے سامنے تصویریں اٹھا اٹھاکر خود زندہ تصویریں بن چکی ہیں راشد حسین کی طویل المدتی دورانیے پر محیط جبری گمشدگی اور پابند سلاسل کرکے اذیت کا شکار بنانا انسانی حقوق کی سنگین پامالی ہے۔ اور اسی اثنا میں انسانی حقوق کے علمبرداروں سمیت تمام عالمی اداروں کی پراسرار خاموشی نہایت ہی تشویشناک ہے۔ہونا تو یہیں چاہیے تھا کہ انسانی حقوق کے عالمی ادارے انسانی حقوق کی پامالی کیخلاف ریاست کو کٹہرے میں لا کر جواب طلب کرتے لیکن ایسے موقع پر خاموشی کا لبادہ اوڑھنا جبر تسلسل کو ایندھن مہیا کرنے کے مترادف ہے۔ہم انسانی حقوق کے عالمی اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ راشد حسین سمیت دیگر سیاسی اسیران کے حوالے سے ریاست کو کٹہرے میں لا کر جواب طلب کیا جائے اور اسیران کو جلد از جلد منظر عام پر لانے کےلیے پاکستان پر زور دیا جائے تاکہ لاپتہ افراد اور ان کے خاندان اس ناختم ہونے والے اذیت سے چھٹکارا پا سکیں۔ دنیا میں بسنے والے ہر انسان کی امیدیں، امنگیں اقوام متحدہ کے ان بلند بالا دعووں پر مرکوز ہیں کہ ہماری عزت وحرمت، نفس کی حفاظت کیلئے ہمارا ہم قدم رہے گی۔ اقوام متحدہ دنیا کا سب سے بڑا انسانی حقوق کا ادارہ ہے۔ اقوام متحدہ کا یہ دعویٰ بھی ہے دنیا میں بغیر حسب و نسب ہر انسان کے حقوق کا تحفظ ہماری بنیا دی ذمہ داری ہے اقوم متحدہ کے چارٹر کو دستخط کر نے والے ممالک کی زمہ داریاں ہیں وہ انکی تحفظ میں اہم کردار ادا کریں۔
اسی بنیاد پر اقوام متحدہ کے منشور میں وجود رکھتا ہے کہ کسی طاقتور ملک کو یہ اجازت نہیں کہ کسی کمزرو ملک یا انسان کا استحصال کریں یا کسی قوم پر قبضہ جمائیں یا اپنی کالونی بنائیں۔ وہ سرزمین کی مال معدنیات ،ساحل ،وسائل کی لوٹ مار اور استحصال کریں اور کسی قوم کے کلچر،زبان،تہذیب ،تمدن کی پائمالی کریں اگر اُن چیزوں میں سے جو بھی ہو، اقوام متحدہ کا فرض بنتا ہیکہ ایسے اعمال وحرکات کے روک تھام میں کردار ادا کریں، کیونکہ انکی بنیادی ذمہ داری ہے۔
إرسال تعليق