بلوچستان کے بگڑتے حالات اور عالمی دنیا کی چُپی ایک سوالیہ نشان


بلوچستان آج معاشی حوالے سے دنیا کے پسماندہ ترین خطوں میں شمار ہوتا ہے تعلیم و صحت جیسے بنیادی سہولیات آج بھی ناپید ہیں آج بھی صحت کے حوالے سے ایمرجنسی نافذ ہے زچہ وبچہ اموات کے حوالے سے سومالیہ کے بعد بلوچستان میں شرح اموات زیادہ ہے ساٹھ فیصد بچوں میں خوراک کی کمی موجود ہے، بجلی نہ ہونے کے برابر ہے

انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں بلوچستان میں ہورہی ہیں، بےروزگاری سے تنگ آکر عوام اپنی زندگیوں کا خاتمہ کررہے ہیں

افسوس کی بات ہے عالمی ادارہ اقوام متحدہ نے آج تک بلوچستان کے ان حالات کے
حوالے سے کوئی سنجیدہ اقدام نہیں اٹھایا،بلوچستان اس وقت مختلف مسئلوں میں الجھا ہوا ہے، بدعوانی اپنے عروج پر ہے حالت زندگی انتہائی سخت ہے مگر ان سب حالات میں اقوام متحدہ نے کوئی مناسب کردار ادا نہیں کیا۔

اسلام آباد دنیا کو کشمیر کے اوپر ہونے والے ظلم کے بارے میں متوجہ کررہا ہے مگر دوسری طرف خود بلوچستان میں بلوچوں پر ظلم کررہا ہے جسکی مثال ہزاروں بلوچ لاپتہ افراد ہیں،


کئی ہزار بلوچ سیاسی کارکن پاکستانی عقوبت خانوں میں بند ہیں، اذیت سہہ رہے ہیں اور کئی ٹارچر سیلوں میں شہید ہوچکے ہیں، ۔جبری گمشدگیوں پر عالمی انسانی حقوق کے تنظمیوں سمیت یورپی یونین اور اقوام متحدہ کو بھی اپنا بنیادی کردار ادا کرنا چاہیے

بلوچستان میں میڈیا اور انسانی حقوق کے اداروں کے لیے ایک ممنوعہ علاقہ ہے ، اس لیے وہاں کی تشویشنانک صورتحال کے بارے میں کوئی خبر سامنے نہیں آ رہی ہے۔

پاکستان عالمی قوانین اور انسانی حقوق کی ذمہ داریوں کا ہرگز احترام نہیں کرتا۔بلوچستان میں اس کی کارروائیوں کے خلاف فوری توجہ کی ضرورت ہے۔
مجرموں کو لازمی طور پر انصاف کے کٹہرے میں لانا ہوگا۔ ہم بلوچستان میں انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کی تحقیق کے لیے بلوچستان میں اقوام متحدہ کا فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیجنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

اقوام متحدہ میں جبری گمشدگیوں کے حوالے سے متعدد قراردادیں پاس ہوچکی ہیں جن کی روح سے جبری گمشدگیوں کی کوئی بھی کاروائی انسانی حقوق اور قوانین کے خلاف ایک سنگین جرم ہے۔ جبری گمشدگیاں اقوام متحدہ کے چارٹر کے منافی اور انسانی حقوق کی کھلی اور سنگین خلاف ورزی ہے.

پاکستان دنیا کو بلیک میل کرکے سفاکیت سے بلوچ نسل کشی میں مصروف ہے، بلوچستان میں خفیہ ادارے آئے روز بلوچ فرزندوں کو جبری گمشدگی اور دوران حراست انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد شہید کرکے مسخ شدہ لاشوں کی صورت میں پھینکنے میں مصروف ہیں.

اقوام متحدہ کا کمیشن برائے انسانی حقوق کا ادارہ پاکستان کے خلاف کوئی عملی قدم اُٹھانے سے قاصر ہوکر صرف تشویش اور اظہار افسوس تک محدود ہے، جبری لاپتہ بلوچ فرزندوں کے لواحقین کی 14 سالوں سے جاری بھوک ہڑتالی کیمپ کو بھی درخود اعتنا نہیں سمجھا جارہا جو خود اقوام متحدہ کے چارٹر کی منافی ہے-

اگر اب بھی اقوام متحدہ نے ماضی کی طرح آنکھیں بند کرتے ہوئے پاکستان کی جانب سے فراہم کردہ غلط معلومات پر بھروسہ کرکے پاکستان کے خلاف کوئی عملی اقدام نہیں اپنائی تو اس سے حوصلہ پاکر پاکستان بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں مزید شدت لائے گا جس سے ایک بہت بڑا انسانی بحران پیداء ہونے کا خدشہ ہے اور اس انسانی بحران کی تمام تر ذمہ داری اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں پر عائد ہوگی-

بلوچستان میں انسانی حقوق کی ابتر صورتحال میں انسانی زندگی بے وقعت ہوتی جا رہی ہے۔بلوچ شہری گذشتہ دو دہائیوں کی پاکستانی فوجی جارحیت کے سامنے بے بسی محسوس کر رہے ہیں۔تاہم بلوچ عوام کےحقوق کی پامالی، ثقافتی ، نسل کشی ، سماجی، معاشی پسماندگی اور فطری وسائل کے بے دریغ لوٹ مار ایک منظم ریاستی طریقہ کار ہے۔ہماری زمین اور ہمارے ساحل فوجی اڈے بنانے کے لیے چینی ریاستی کارپوریشنز کو فروخت کیے جا رہے ہیں۔مقامی ماہی گیر کمیونٹی کو ان کے گھر اور ذریعہ معاش سے محروم کرکے نقل مکانی پر مجبور کیا جا رہا ہے

آج بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں سمیت اقوام متحدہ کو بلوچستان میں مداخلت کرنا چاہیے ۔ کیونکہ آج پاکستان آرمی اور اس کے بنائے ہوئے ڈیتھ اسکواڈ انسانی حقوق کی تمام قوانین کو روند کر سرعام بلوچ نسل کشی میں ملوث ہیں اس لیے اقوام متحدہ کی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ بلوچستان کو ایک جنگ زدہ علاقہ قرار دیے کر مداخلت کرئے ۔

اقوام متحدہ اور دیگر اداروں کی بلوچستان سے متعلق خاموشی کی وجہ سے یہاں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ تیز اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے

ہزاروں لاپتہ بلوچ سیاسی کارکنوں کی مسخ شدہ اور گولیوں سے چھلنی لاشیں بلوچستان کی طول و عرض میں پھینکی گئی اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے، پاکستان کے تمام ادارے خواہ وہ میڈیا ہو یا پارلیمنٹ سب اس قتل عام پر خاموش اور بلوچ قوم کو دشمن تصور کرتے ہیں

بلوچستان میں سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگی اور مسخ شدہ لاشوں پر دنیا کو گمراہ کرنے کے لئے ریاستی ادارے دنیا گمراہ کرنے کے لئے مختلف پروپیگنڈہ کررہے ہیں

حقیقت یہی ہے کہ بلوچ گمشدہ نہیں بلکہ پاکستان کے ٹارچر سیلوں میں اذیت سہ رہے ہیں اور ہم اقوام متحدہ سمیت دیگر انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں جاری مظالم، جبری گمشدگیوں پر اپنی خاموشی توڑ کر لاپتہ افراد کی لواحقین کو انصاف دلائیں اور لواحقین کو انکو پیاروں تک رسائی دلانے میں ایک کردار ادا کریں –

اقوام متحدہ سے بلوچستان کے عوام ،سیاسی اور دیگر نمائیدگان جن کی امیدیں وابستہ تھی وہ بھی اب مایوس ہوچکے ہیں، کیونکہ اقوام متحدہ نے نا لاپتہ افراد کے بازیابی پر اقدام اٹھایا،نا ہی بلوچستان میں غربت کی کمی کے حوالے سے سنجیدہ اقدامات کیئے اور نا ہی انسانی حقوق کے معاملے میں اقوام متحدہ نے کردار ادا کیا،لہذا ان حالات میں ہم اُمید کرتے ہیں

عالمی دنیا کو اپنی توجہ بلوچستان کی طرف کرنے کی ضرورت ہے اگر اس وقت عالمی دنیا نے بلوچستان کے حقوق کے لئے ساتھ نہیں دیا تو مظلوم و محکوم اقوام کا عالمی دنیا سے بھروسہ اٹھ جائے گا۔

Post a Comment

أحدث أقدم