بلوچ خواتین کی جبری گمشدگی بلوچ معاشرے کے تتقدس پر حملہ

 

بلوچستان ایک ایسے انسانی المیہ سے دوچار ہے جس کے اثرات کی وجہ سے بلوچستان میں رہائش پذیر ہر فرد ڈر، خوف اور پریشانی کے عالم میں اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ دو ہزار نو سے جاری ماورائے عدالت گرفتاری اور قتل عام کے واقعات وسعت اختیار کرتے جارہے ہیں لیکن اس فعل پر خاموشی نے بلوچستان کو ایک غیر انسانی صورتحال سے دو چار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے نوجوانوں،بزرگوں سمیت بلوچ خواتین و بچوں کی اغوا نما گرفتاری میں ریاست کی جانب سے تیزی سامنے آ رہی ہے۔ اجتماعی سزا کے طور پر خواتین اور بچوں کی ماورائے عدالت گرفتاری بلوچستان کے مختلف علاقوں میں شدت اختیار کرتی جارہی ہیں، گذشتہ چند دنوں میں مختلف کاروائیوں میں نصف درجن خواتین کو گرفتار کرکے تفتیش کے نام پر نامعلوم مقام پر منتقل کیا گیا ہے جس کی وجہ سے گرفتار ہونے والے افراد کے اہلخانہ تشویشناک صورتحال کا سامنا کرنے پر مجبور ہے۔خاص کر خواتین کی جبری گمشدگیاں بلوچ معاشرہ خواتین کے بارے میں بہت حساسیت رکھتی ہے،ایسے واقعات بلوچ حمیت اور صدیوں سے بلوچ معاشرہ میں تقدس کے حامل روایات پر براہ راست حملہ سمجھتے ہیں، اس کے طرح کے واقعات کے نتائج ریاست کے لئے انتہائی گھمبیر ہونگے اور اِن واقعات سے بلوچ مسئلے کے تپش میں اضافہ ہورہا ہے۔

آج بلوچ خواتین کے ساتھ جو نارواہ عمل خواتین کو اغوا اور تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے قابل مذمت ہے. ریاستی فورسز نے کوئٹہ کے علاقے سیٹلائٹ ٹاؤن سے سیاسی کارکن اور انسانی حقوق کیلئے جدوجہد کرنے والی خاتون ماحل بلوچ کو اُس کے بچوں سمیت جبری طور پر گرفتار کر کے لاپتہ کیا ۔ جہاں بچوں کو رات بھر تشدد کے بعد چھوڑ دیا گیا وہیں ماحل بلوچ تاحال ریاستی اذیت خانوں میں پابند سلاسل ہے۔ ریاستی اداروں نے روایتی پالیسی اپناتے ہوئے ایک بار پھر من گھڑت الزم لگا کر ماحل بلوچ کو خودکش بمبار ہونے کا الزام لگایا ہے جو کہ ریاستی بوکھلاہٹ کی واضح عکاسی کرتا ہے۔ ریاست جہاں تمام تر وسائل استعمال کرتے ہوئے بلوچ قومی سیاست کو کاؤنٹر کرنے سے قاصر ہے وہیں مختلف حربوں کو آزماتے ہوئے نہتے سیاسی کارکنان پر مختلف الزام لگا کر سلاخوں کے نذر کر رہا ہے۔ بلوچ خواتین کو اس طرح سے نشانہ بنانا اور ان کی جبری گمشدگیوں سے بلوچستان میں برسوں سے جلتی ہوئی آگ میں مزید اضافہ ہوگا، بلوچستان میں ایک سوچے سمجھے سازش کی تحت بلوچستان کی حالات کو خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس کی واضح ثبوت کہ آج بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بلوچ خواتین معصوم بچوں اور ضعیف العمر بزرگوں کو اغوا کرکے جھوٹے دعوں کا جواز بنا کر ظلم و جبرتشدد اور غیر قانونی ماورائے آئین کے تحت اٹھایا جارہا ہے جوکہ سنگین انسانی حقوق کی پامالیوں کے زمرے میں آتا ہے

بلوچ خواتین اور معصوم بچوں کی جبری گمشدگی اغواہ بلوچستان کے پہلے ہی سے بحرانی حالات کو مزید خرابی کے طرف دھکیلے گا ایسے اقدامات کی اچھے اثرات ہرگز مرتب نہیں ہونگے اس نام نہاد جمعوری دور ء حکومت نے بھی بلوچستان کی مسلے کو طاقت خوف و ہراس جبری گمشدگیوں اغواہ نما گرفتارویوں کی طرف سے حل کرنے کوشش کیا جارہا ہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کو طاقت کے زور پر کبھی بھی حل نہیں کیا جاسکتا بلوچ قومی سوال اور بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے ایسے غیر انسانی و غیر جمعوری ہتھکنڈو سے دبایا نہیں جاسکتا

بلوچستان میں بلوچ خواتین کی جبری گمشدگی میں تیزی دیکھنے کو مل رہی ھےاس سے قبل رشیدہ زہری اور اسکے خاندان کے افراد کو لاپتہ کیا گیا اب جب گذشتہ روز انھیں چھوڑ دیا گیا تو مزید ایک اور بلوچ خاتون کو لاپتہ کردیا گیا ہے بلوچستان سے خواتین کی جبری گمشدگی حالات کو مزید ابتری کے طرف لے جائینگے

لوچستان میں خواتین کا بہت بڑا مقام ہے ریاستی پالیسیاں بلوچوں کے کوڈ آف کنڈک کے خلاف ہیں پرامن صوبے کا خواب مکمل نہیں ہوسکتا ۔اس سے قبل بلوچ مردوں کو اُٹھایا جاتا تھا گذشتہ دنوں ایک بزرگ شخص کو فورسز نے تشدد کرکے قتل کردیا بلوچستان سے مردوں کی جبری گمشدگی کا سلسلہ ختم نا ہوسکا البتہ اب خواتین کو لاپتہ کیا جارہا ہے جو مزید صوبے کے حالات کو تباہی کی طرف لے جائینگے۔بلوچ خواتین کے خلاف اس طرح کے عمل سے ریاست کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا بلکہ یہ مزید نفرت کے جذبات کو ابھارنے کے سبب بنیں گے ۔پاکستانی فوج کے ہاتھوں جہاں بلوچ طلبا کی جبری گمشدگیوں میں اضافہ ہو اہے وہیں بلوچستان و پاکستان بھر میں بلوچ خواتین کی جبری گمشدگیوں کی جنگی جرائم نے بلوچ سماج کو ایک انسانی المیے سے دوچار کردیا ہے۔لوچستان میں جبری گمشدگیاں کسی خاص واقعے کا ردعمل نہیں اور نہ ہی صرف ان افراد کو نشانہ بنایا جاتا ہے جن کا تعلق کسی مسلح مزاحمتی تنظیم سے ہے، جیسا کہ پاکستان کے نام نہاد سیکورٹی ادارے میڈیا اور دنیا کو دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔روزانہ کی بنیاد پر جبری گمشدگیوں اور مسخ لاشیں ملنے کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہے جو کہ جیمڑی بلوچستان سے لے کر لاہور پنجاب اور شال سے لے کر سانگھڑ سندھ تک پھیلا ہوا ہے بلوچ پاکستانی ریاست میں کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ نہ ان کی زندگیاں، نہ مال اور نہ ہی عزت محفوظ ہے۔

اپریل 2022 کو ضلع پنجگور کے قصبہ گچک کے گاؤں کرک ء ڈل سے دو خواتین شھزادی اور شاہ بی بی اور ایک چھ دن کی چھوٹی بچی کو ایف سی نے حراست میں لیا اور انھیں اپنی حراست میں جبری گمشدہ کر دیا۔ ایک حاملہ خاتون اور ایک چھ دن کی بچی بھی خودکش بمبار ہوسکتی ہیں؟،

قاضی داد محمد ریحان نے کہا کہ ضلع کیچ کے قصبہ کولواہ کے گاؤں ڈل بازار میں ایف سی صوبیدار جس کا نام یارمحمد ہے اور یارو کے نام سے معروف ہے اس کے ماتحت اہلکاروں نے ایک گھر میں گھس کر خواتین اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی کوشش کی جسے مقامی لوگوں نے بروقت ناکام بنادیا، آپ معلوم کریں کہ اجتماعی جنسی زیادتی خودکش بمبار یا کسی بھی جرم کی کون سے آئین و قانون کے تحت سزا ہے جو بلوچ خواتین اور بچوں کو دی جا رہی ہے۔آپ جب سوچیں گے تو آپ خود حقیقت تک پہنچیں گے کہ یہ سب بلوچ قوم کے خلاف انتقامی کارروائیاں ہیں۔ یہ کارروائیاں بلوچ قومی تحریک کے سرگرم کارکنان کے اہل خانہ کے خلاف ہو رہی ہیں انھیں دباؤ میں لانے اور تحریک سے دست بردار کرنے کے لیے ان کے والدین، بھائی، بہن، بیوی اور بچوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔بلوچ معاشرے میں خواتین کے وقار کی بڑی اہمیت ہے، ہم اس پر خاموش رہیں گے اور نہ ہی یہ قابل برداشت ہے۔بلوچ ہر سطح پر اس کے خلاف بات کریں گے۔ ایک جانب بلوچ خواتین کو سنگین ریاستی اجتماعی سزا کا سامنہ ہے تو دوسری جانب بلوچستان میں ایسی حکومت تشکیل دی گئی ہے جن کے وزرا اپنے نجی جیلوں میں بلوچ خواتین و بچوں کو سالوں سے قید کیے ہوئے ہیں اور انہیں ریاست کی جانب سے کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔بلوچستان کے کہی علاقوں میں سرکاری سرداروں کے نجی جیل موجود ہیں جو خواتین کے علاوہ مردوں اور بچوں کو بھی اپنے قیدوبند میں رکھتے ہیں۔ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو روکھنے کے لیے انسانی حقوق کے اداروں کو بلوچستان میں امن کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے. بلوچستان میں آئے روز خواتین اور بچوں کی جبری گمشدگی پہ عالمی اور ملکی اداروں کی خاموشی کی وجہ سے ایک ایسا انسانی المیہ جنم لے چکا ہے جس کے اثرات سے بلوچستان مقتل گاہ کی صورت اختیار کرچکا ہے اور اس عمل پر مزید خاموشی اس کے اثرات کو مزید وسعت دی سکتی ہیں جس کے اثرات مستقبل میں بھیانک روپ اختیار کرسکتے ہیں۔ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ عالمی انسانی حقوق کے ادارے، پاکستان کو مالی مدد پہنچانے والے ممالک اور بالخصوص بلوچستان کے ہمسایہ اور خلیجی ممالک اپنا اثرو رسوخ استعمال کرتے ہوئے خواتین اور بچوں کی جبری گمشدگی کے خلاف اپنا فوری کردار ادا کریں۔

Post a Comment

أحدث أقدم