بلوچستان میں ہر صبح کا آغاز کسی بری خبر سے ہونا کوئی نئی بات نھیں اب تو ہمیں بھی ایک عادت سی ہوگئی ھے آج جب میں صبح اٹھی تو روز معمول کی طرح میں نے اپنے لئے چائے بنائی اور اپنے فون کی سکرین پر آئی نیوز پڑھنے لگی میری نظر ایک ایسی دل ہلا دینے والی خبر پر پڑی جسے پڑھ کر میرے رونگھٹے کھڑے ہوگئے میں نے اپنا چائے کا کپ وہیں ٹیبل پر رکھ دیا اور بہت دیر تک جیسے میرا جسم سکتے میں آگیا۔یہ خبر تھی بلوچستان کے امیر ترین ضلع ڈیرہ بگٹی کے تحصیل سوئی کی۔ بلوچستان کے علاقے سوئی، وشحال کالونی کے 13 سالہ بچے راجو ڈومب بگٹی نے غربت اور گھر کے حالات سے تنگ آکر اپنی زندگی کا خاتمہ کردیا۔ ماں بیٹے کو گھر میں بٹھاکر پڑوسیوں کے پاس آٹا مانگنے گئی تو بھوک سے بدحال کمسن بچے نے مایوس ہوکر گلے میں پھندا ڈال کر خودکشی کرلی۔ ایک معصوم تیرہ سالہ بچہ جس نے محظ ایک سوکھی روٹی کے لئے اپنی جان دے دی زرا سوچیں اس ماں کے دل پر کیا گزری ہوگی جس کے بچے نے بھوک سے تنگ آکر خود کشی کر لی کتنا بے بس اور لاچار محسوس کر رہی ہوگی وہ ماں جو اپنے جان سے بھی پیارے بیٹے کی زندگی نہ بچا سکی ایک بلوچ ماں کا عبادت جیسا بچہ بھوک سے مر گیا ۔امیر شہر،امیرانِ شہر اور اس میڈیا کو معلوم ہی نہیں کہ سوئی کے اس کچے مکان میں ایک ماں کے ساتھ کیا ہوگزرا کیسی قامت ٹوٹی ھوگی ۔روائیتی میڈیا کی بے بسی اور اندھا پن تو سمجھ میں آتا ہے کہ وہ معصوم بلوچ بچہ کسی برانڈ کا امبیسڈر نہیں تھا کہ اس کے مرنے پر ملک اور ملکی میڈیا میں تھر تھلا مچ جاتا پر سوشل میڈیا پر بھی خاموشی طاری ہے، حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سوشل میڈیا اس معصوم کے بھوک سے مرنے پر ایک چیخ بن کر ابھرتا،ایک آہ بن کر نکلتا،آگ بن کر پو رے سوشل میڈیا کو جلا ڈالتا، پر چیخ کیا اس معصوم کا مرنا سوشل میڈیا پر چیخ کیا بنتا پر ایک کراہ بھی نہیں بنا۔بس وہ ماں ہے جو امیرو ں کی بستی سے سیکڑوں کلو میٹر دور اپنے بچے کو دفن کر چکی اور اب رو رہی ہے ۔مائیں پہاڑوں کے اُوٹ میں اپنے کچے گھروں میں بچے جنتی ہیں،کبھی بھونکتی بندوقیں ان بچوں کو کھا جا تی ہیں تو کبھی پیٹ کی آگ انھیں مرنے پر مجبور کر دیتی ھے اور وہ دوڑتے،مسکراتے،ہنستے،کھیلتے بچے قبر بن کر پہاڑوں کے میدانوں میں دفن ہوجاتے ھیں۔ اور ریاست ِ مدینہ ہے کہ جسے کچھ خبر ہی نھیں
ہمیں
ریاستِ مدینہ سے کوئی گلا نہیں وہ تو اس
بلوچ ماں سے واقف ہی نہیں پر بلوچ سیا ست
کو کیا ہوا ہے جو یہ نہیں جانتی کہ آج ڈیرہ
بگٹی کے اس کچے مکان میں کون سے ماں یتیم
ہوئی ہے
یہ
ضروری نہیں کہ ماؤں کے مر جانے پر بچے یتیم
ہوں
پر ایسا بھی تو ہوتا ہے کہ مسکراتے بچے مر جائیں اور مائیں یتیم ہو جائیں۔ہم اپنے تصور میں اس ماں کو کیسے دیکھ سکتے ہیں جس ماں نے آج اس بچے کو دفن کر دیا اس ماں کو کیسے دیکھ سکتے ہیں جو دیوانی ہو رہی ہے ۔اب بس ایک دیوانی ماں ہے اور بہت سارا درد۔
ضلع ڈیرہ بگٹی میں اس وقت چار گیس فیلڈز سوئی، پیر کوہ، لوٹی اور اُچ ہیں جو پاکستان بھر میں سپلائی کیا جاتے ہیں تاہم سوئی گیس سے وہاں کے مقامی لوگ ابتک محروم جبکہ بے روزگاری کی شرح بھی زیادہ ہے۔
سوئی گیس فیلڈ پاکستان پیٹرولیم لمیٹیڈ (پی پی ایل) نامی کمپنی چلاتی ہے، جس کا ہیڈ کوارٹر کراچی میں ہے۔ سوئی گیس فیلڈ سے گیس کی یومیہ پیداوار تقریباً چھ سو ساٹھ ملین کیوبک فٹ ہے اور وہاں اب بھی ایک اندازے کے مطابق دو ٹریلین کیوبک فٹ گیس کے ذخائر موجود ہیں
صوبہ
بلوچستان کا ذکر آتے ہی زہن میں دو چیزیں
فورا آجاتی ہیں اول یہ کہ نیچرل ریسورسیز،
جغرافیائی محل وقوع طویل نیلگی ساحلی پٹی
گویا قدرت نے اس خطے کو ہرشے سے مالامال
کیا ہے دوئم اسکی پسماندگی غربت و افلاس
بنیادی ضرویات زندگی سے محرومی کا نقشہ
تصویر بن کر ابھر کر سامنے آجاتا ہے۔
دودر، گوادر، بلند بالا پہاڑ، اور وہ سب لُٹیرے جو اپنے ساتھ جھوٹے وعدے لائے اور بلوچستان کے دامن سے نیلگوں پانیوں سے لیکر، چمکتے سونے تک، سوئی کی گیس سے لیکر، بلند و بالا پہاڑوں کے سنگ مرمر تک سب لوٹ کر لے گئے۔ پر بلوچستان کو کچھ نہ دیا۔ امیر بلوچستان اب بھی غریب ہے۔آج بھی بلوچ مائیں بھوک سے مرتے بچے دیکھ رہی ھیں ۔امیر صوبہِ بلوچستان میں سب کچھ ہے پر کیے گئے عہد کی وفا نہیں۔ رکوڈک، دودر، سی پیک والوں نے بھی تو عہد کیے تھے۔ بلوچوں نے اس عہد کا پاس رکھا سب کچھ ہونے دیا اور جو اب تک ہو رہا ہے اسے بھی برداشت کیا۔ پر ایک بھی عہد وفا نہیں ہوا۔
اب
بلوچ بیٹے ہی کیا، پر ان کے خواب بھی راہوں
میں رُل رہے ہیں
اور
کوئی نہیں جو ان کا پرسان حال بنے
کوئی
نہیں
کوئی
نہیں!
اے دل!کوئی تو نوحہِ دردِ دل ہو۔
إرسال تعليق