دو دہائیوں سے مسائل اور دشواریوں کا سامنا کرتی گوادر کی عوام

 

گوادر کے ماہیگروں کے مسائل آج کے نہیں بلکہ دہائیوں سے مقامی ماہیگر اِن دشواریوں کا سامنا کررہے ہیں، گوادر بندرگاہ بننے سے اُن کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے  

گزشتہ سال نومبر – دسمبر کے مہینوں دوران گودار میں ہزاروں مقامی ماہیگیروں نے ایک مہینے تک دھرنا دیا تھا اور بلوچستان بھر میں ٹرالنگ کے خلاف وسیع پیمانے پر احتجاج شروع ہوا تھا، جس کی قیادت جماعت اسلامی بلوچستان کے سیکریٹری جنرل مولانا ہدایت الرحمن اور حسین واڈیلہ حق دو بلوچستان کے پلیٹ فارم سے ہوئی تھی


احتجاج میں ضلع گوادر کے علاوہ بلوچستان کے دیگر علاقوں سے بھی لوگ شریک ہوئے

دھرنے کے اہم مطالبات جن میں بحر بلوچ میں غیر قانونی ٹرالرنگ کا خاتمہ کے علاوہ سرحدی کاروبار کی بحالی اور غیر ضروری پاکستانی فورسز کی چیک پوسٹوں کا خاتمہ تھا

گوادر میں بیانگ دہل جیسے منصوبوں کا منصوبوں کا بنیادی مقصد مقامی لوگوں کو بتدریج بیدخل کرنے اور پنجابیوں اور چینیوں کو بڑے پیمانے پربسانا ہے۔ مقامی لوگوں کو ایک طرف پانی جیسے بنیادی سہولت سے محروم رکھا گیا تو دوسری طرف بڑے بڑے سرمایہ داروں، ریٹائرڈ فوجی جرنیلوں کی ملکیت والے ٹرالروں کے ذریعے سمندری وسائل کو لوٹا جارہا ہے تاکہ مستقبل میں لوگوں کو گوادر سے ہجرت پرمجبور کیا جائے۔

کسی بھی معاشرے میں مسلسل جبر اور لوگوں کو زندگی کی بنیادی حقوق سے محروم رکھنے کے نتائج مزاحمت کی شکل میں سامنے آتے ہیں۔ گوادر کے غیور عوام نے اپنے آباو اجداد کی تقلید کرتے ہوئے گوادر کو بچانے کیلئے سیاسی مزاحمت کا مظاہرہ کیا ہے جو نہایت ہی حوصلہ افزا ہے

گوادر کے مقامی لوگوں کی فوجی چیک پوسٹوں پر تذلیل، ہزارہا سالوں سے ذریعہ معاش ماہی گیری پر پابندی اور پینے کے صاف پینے کی عدم دستیابی کے خلاف حالیہ احتجاجوں کا تسلسل بلوچستان میں جاری ریاستی مظالم کو آشکار کرتی ہیں

ایک طرف گوادر کے حوالے سے دنیا کی آنکھوں میں دول جھونکا جارہا ہے کہ یہاں پر ترقی ہو رہی ہے سی پیک جیسے منصوبوں سے یہاں کے لوگوں کی تقدیر بدل رہی ہے جبکہ دوسری جانب حقیقت میں عام عوام پانی جیسی بنیادی انسانی ضروریات کیلئے بھی تڑپ رہے ہیں اور مقامی آبادی کو سیکورٹی کے نام پر تذلیل کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔عام عوام اپنی ہی زمین جہاں وہ صدیوں سے آباد ہیں وہاں دن میں درجنوں مرتبہ اپنی شناخت کراتے ہیں اس کے علاوہ ٹرالنگ مافیا کی طرف سے گوادر کے لوگوں کا معاشی قتل بھی کیا جا رہا ہے جس سے گوادر کا ماہی گیر نان شبینہ کا محتاج ہو چکا ہے۔

ایک طرف ماہیگروں کی معاشی قتل کیا جارہا ہے تو دوسری جانب بارڈر بندش سے عوام کا روزگار مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔ ٹوکن سسٹم نے غریبوں کو نان شبینہ کا محتاج بنا دیا ہے۔ بلوچستان بلخصوص مکران کی زیادہ تر کاروبار کا ذریعہ بارڈر پر ہے جسے بند کرکے لوگوں کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ غیر انسانی عمل یعنی منشیات فروشی اور ایسے غیر انسانی عمل کا حصہ بنیں۔

مظالم کے خلاف سیاسی اور عملی جدوجہد واحد راستہ ہے اگر آج ہم نے ان مظالم کے خلاف جدوجہد کا فیصلہ نہیں کیا تو ہماری آنے والی ہر نسل ان مظالم کا سامنا کرے گا۔

گوادر میں کشیدگی کم کرنے کے لئے جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل لیاقت بلوچ کی سرکردگی میں پاکستانی فوج کے افسران اور حق دو تحریک کے کونسلران کے درمیان مذاکرات ہوئے۔ مذاکرات میں پاکستانی آرمی کے کور کمانڈر کوئٹہ جنرل آصف غفور نے یہ دھمکی دے ڈالی کہ اگر گوادر میں آئندہ ہڑتال ہوئی اور دھرنا دیا گیا، تو آپ لوگوں کو جیل میں ڈال دوں گا۔ اس سے پہلے بھی جنرل آصف غفور نے دھمکی دی تھی کہ جنگ اور محبت میں سب جائز ہے اور اُن کے کور کمانڈر کوئٹہ تعیناتی کے بعد بلوچستان میں نوجوانوں کی جبری گمشدگی میں اضافہ ہوا ہے۔

کور کمانڈر کوئٹہ کے بیان کی بلوچستان اور پاکستان بھر کے سیاسی جماعتوں اور شخصیات کی جانب سے سخت مذمت کی جارہی ہے۔ حق دو تحریک کے کونسلر کاکا سلیمان نے کہا کہ دوران مذاکرات تحریک کے قائدین نے جنرل آصف غفور کو واضح جواب دیا کہ دھمکیوں سے ہمیں ہمارے مطالبات سے دستبردار نہیں کیا جاسکتا ہے اور ظلم و جبر سے ہماری تحریک کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ بلوچ نیشنل موومنٹ کے سیکریٹری جنرل دل مراد بلوچ نے اپنے بیان میں کہا کہ آصف غفور کی دھمکی ہماری ( بلوچستان ) نوآبادیاتی حیثیت ظاہر کرتا ہے

پرامن احتجاج کو طاقت کے زور پر ختم کرنا اور پر امن تحریک کے راستے محدود کرنا صرف آصف غفور نہیں بلکہ پوری ریاست اور ریاستی فوج کی مائنڈ سیٹ ہے۔


Post a Comment

أحدث أقدم