کریمہ بلوچ کی شہادت اور ریاستی ہتھکنڈے


 

بانک کریمہ بلوچ کی شہادت اور تدفین سے متعلق وفاقی و صوبائی حکومتوں نے بوکھلاہٹ اور ناشاہستگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام انسانی اقدار کو پاوں تلے روند ڈالا جس کی جتنی بھی مخالفت و مذمت کی جائے کم ہے۔بانک کریمہ بلوچ کی خاندان کو میت حوالگی سے لیکر تدفین تک کے عمل میں سیکورٹی اداروں کی مداخلت اور شرمناک حکومتی رویہ یقیناً افسوسناک ہے۔مشکوک حالات میں انکی ناگہانی موت نے بلوچستان سے باہر مقیم بلوچ پناہ گزینوں کے حفاظت کے بابت سنجیدہ سوالات کھڑے کردیئے ہیں۔ بلوچ پناہ گزین مسلسل بیرون ممالک نشانہ بنتے آرہے ہیں، افغانستان اور ایران میں بلوچ مہاجرین کو نشانہ بنانے کے متعدد واقعات رونما ہوچکے ہیں، اب بلوچ پناہ گزین یورپ اور کینیڈا میں بھی نشانہ بن رہے ہیں۔ کریمہ بلوچ کی گمشدگی کے دن ہی افغانستان کے شہر کندھار میں بلوچوں کے بگٹی قبیلے سے تعلق رکھنے والے دو پناہ گزینوں کو فائرنگ کرکے جانبحق کیا گیا تھا۔

بانک کریمہ بلوچ کی شہادت اور ریاستی ہتھکنڈے نے ہر بلوچ کے دل میں ریاست کے لئے نفرت کی شدت میں مذید اضافہ کردیا ہے۔ کریمہ بلوچ،ساجد حسین، جنرل اسلم بلوچ کی دیار غیر میں شہادت اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ریاست پاکستان نے بیرونی ممالک میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے والے سیاسی رہنماوں پر گھیرا تنگ کرنے کی پالیسیوں پر عملدرآمد شروع کردیا ہے۔چوبیس جنوری دو ہزار اکیس کو شہید کا جنازہ کراچی ایئرپورٹ پہنچا تو ریاست نے عوامی رد عمل کے خوف سے لاش کو اپنی تحویل میں لیکر فوجی حصار میں تمپ کی جانب روانہ کردیا۔ تمپ میں کرفیو کا نفاذ، بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں موبائل نیٹ ورک کی بندش، لوگوں کو نماز جنازہ میں شرکت سے روکنے کے لئے فوج کو رکاوٹیں کھڑی کرنے کی ہدایت، کراچی میں شہید کی نماز جنازہ ادا کرنے سے روکنے کے لئے گراونڈ کو بند کرنا، بلوچ یکجتی کمیٹی کے رہنماء ماہرنگ بلوچ اور ساتھیوں کو تربت میں داخلے سے روکنا اور ضلع بدری کے احکامات جاری کرنا،شہید کی قبر سے بلوچستان اور تنظیم کے جھنڈے کو ہٹانا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کریمہ آج بھی ریاست کے لئے خوف کی علامت ہے اس طرح کے غیر انسانی عمل کی نظیر کسی مہذب معاشرے میں نہیں ملتی، فلسطین اور کشمیر میں اسرائیل و انڈیا کے افواج بھی اس طرح کا غیر انسانی رویہ لاشوں کیساتھ نہیں اپناتے، جس طرح کا غیر انسانی سلوک پاکستان بلوچوں کیساتھ روا رکھا ہے۔

جنگوں میں دشمن ایک دوسرے کے لاشوں کا احترام کرتے ہیں لیکن ہمارا دشمن اخلاقی، انسانی اور بین الاقوامی اصولوں سے ناواقف ہے یہ پہلا واقعہ نہیں کہ کسی لاش کی بے حرمتی کی گئی ہے اس سے قبل نواب اکبر بگٹی کو شہید کرکے ان کی لاش کو خاندان اور بلوچ قوم کے حوالے کرنے کی بجائے تابوت میں مقفل کرکے دفنائی گئی۔

نواب خیر بخش مری کی لاش کو بھی ریاستی تحویل میں خاندان و بلوچ قوم کے مرضی و منشاء کے بغیر کاہان لے جاکر دفنانے کی کوشش کی گئی۔

ریاستی ادارے سمجھتے ہیں کہ وہ گمنامی میں لاشوں کو دفنا کر ان کی نظریات سے لوگوں کو دور رکھ سکیں گے یہ انکی احمقانہ سوچ ہے۔

۔بلوچ قوم اور بلوچستان کی آزادی کی تحریک شروع دن سے تشدد زدہ رہی ہے اور اس میں ہزاروں کی تعداد میں بلوچ فرزندوں نے اپنے لہو سے بلوچ سرزمین کو رنگ دیا ہے اور بلوچ قوم کے غلامی کے خلاف آزادی کی تحریک کو دن بہ دن مظبوط اور پختہ کیا ہے۔

انہی لازوال قربانیوں میں سے ایک ہستی بانک کریمہ ہے، جن کے لہو کی خوشبو سے آج سارا بلوچستان مہک رہا ہے اور ہر بلوچ کا سر فخر سے بلند ہے بلوچ قوم اپنے شہیدوں کے نظریے کو پہنچاتی ہے اور انکے نظریے پر آج بھی عمل کررہی ہے، شہید بانک کریمہ نے جو سیاسی نظریاتی تربیت بلوچ قوم کو دی ہے وہ تاریخ کے سنہرے الفاظوں میں ہمیشہ یاد کیا جائے گا آج ریاست شہید بانک کریمہ کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کرنے سے بلوچ قوم کو روک رہا ہے مگر شہید کے نظریہ پر عمل کرنے سے ہرگز روک نہیں سکتا،بانک کریمہ کی شہادت کے بعد بلوچ قومی شناخت کی تحریک مزید مضبوط ہوچکا ہے۔

کریمہ امر ہے اور وہ کسی اور روپ میں دوبارہ نمودار ہوگی اور ریاست کو خوف کے حصار میں لیکر دوبارہ بلوچستان بھر میں اپنی مسحور کن آواز سے لوگوں کو بیدار کریگی کیونکہ بانک نظریئے کا نام ہے۔ کیا تم نظریئے کو شکست دے سکتے ہو؟جی ہاں بانک زندہ ہے، بانک جہد کی شکل میں زندہ ہے، بانک مزاحمت کی شکل میں زندہ ہے، بانک عمل کی شکل میں زندہ ہے۔


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی