عید کے تہوار کو لے کر جو خوشیاں منائی جاتی ہیں، ان کا تصور بلوچستان میں اب نہیں کیا جاسکتا۔ اب ہر خوشی کا تہوار بلوچ مسنگ پرسنز کے خاندانوں کے لیے اذیت لے کر آتا ہےعید کا سورج جہاں خوشیاں اور مسکراہٹیں لیکر طلوع ہوتا ہے، وہاں وہ اقوام جو غلامی کی زنجیروں میں جھکڑے ہیں ان کیلئے عید کی خوشیاں سطحی و غم زدہ ہوتی ہے۔ عید کے بابرکت دن بھی بلوچ مسنگ پرسنز کیمپ کھلا ہوتا ہے اور اس دن ریلیاں اور مظاہرے ہوتے ہیں۔ایک ماں جس نے ہر عید اپنے لخت جگر کیساتھ گذاری تھی، اب اس کی عید میں اس کے بیٹے کو گھسیٹ کر لے جانے اور طویل عرصہ لاپتہ کرنے کا سناٹا ہے۔ معصوم بچے جن کے ہاتھوں میں کھلونے ہونے چاہیئے ظالم ریاست نے ان ننھے ہاتھوں سے کھلونے چھین کر گمشدہ احباب کی تصویریں تھما دی ہیں۔لاپتہ افراد کی بیویاں ذہنی طور پر بیمار ہوچکی ہیں۔ پیاروں کی جدائی کے درد کو یہ حکمران سمجھ نہیں سکتے ہیں کیونکہ وہ اس درد اور کرب سے کبھی گزرے ہی نہیں ہے۔ عید کے دن وہ نئے کپڑے پہن کر خوشیاں مناتے ہیں لیکن بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کی عید بھی سڑکوں پر اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے احتجاج کرتے ہوئے گزرتی ہے۔رمضان کے با برکت مہینے میں سب روزہ رکھتے ہیں افطاری کے وقت دسترخوانوں پر مختلف اقسام کے کھانے سجتے ہیں، لیکن ہمارے بلوچ لاپتہ بھائیوں کے گھر وں میں نا تو افطاری کا دستر خوان سجتا ہے نہ ہی عید کی کوئی خوشی بس امید لگاۓ بیٹھے ہیں کب اُنکے پیارے خیریت سے واپس آجائیں۔عید پر لوگ اپنے پیاروں کی قبروں پر حاضری دیتے ہیں اور دعائیں مانگتے ہیں لیکن ہمارے پیاروں کی قبریں بھی ہمیں میسر نہیں ہے۔ ہمیں معلوم نہیں کہ وہ زندہ بھی ہے یا مر چکے ہیں یہ جبر کا سب سے بدترین نظام ہے۔یہ تہوار، یہ خوشیاں سب غدار ہیں، ہر سال جب یہ آتے ہیں تو غموں کو کریدتے ہیں، یہ یاد دلاتے ہیں، اُن اپنوں کی جو اب ساتھ نہیں رہے، جو مار دیئے گئے یا لاپتہ ہوگئے ، جو اب بس تصویروں میں رہ گئے ہیں، یہ عیدیں یاد دلاتی ہیں، اُن اپنوں کی ،اُن ساتھ بتائے لمحات کی ، یہ عیدیں غدار ہیں، یہ تہوار غدار ہے بلوچ کیسے منائیں عید؟ کیسے منائیں خوشی؟ جب لوگ چاند کو تلاش کرنے نکلتے ہیں، تو بلوچ مائیں، بہنیں، باپ، بھائی اور بلوچ فرزند اپنی پیاروں کی تصاویر گلے سے لگاتے ہوئے کہتے ہیں: “یارب ہم آپ سے اور کچھ نہیں مانگتے، بس ہمارے پیارے لوٹادو۔” شہید وں کے ماں شہیدوں، کے فرزند شہیدوں کے وارث، اپنے شہدا کے تصاویر گلے سے لگا کر فریاد کرکے بولتے ہیں آپ کے بغیر ہم کیسے عید منائیں؟ یا رب! ہم بھی عید منائینگے، ہم بھی خوشیاں منائینگے دنیا بھرکے مسلمانوں کے اس خوشی میں شریک ہوجائینگے، لیکن ایک شرط ہے کہ آپ ہمارے گئے ہوئے لوگوں کو واپس لوٹا دو، ہمارے لاپتہ لوگوں کو واپس لاؤ اور ہمارے وطن کو آزادی دلادو۔بلوچ قوم کے قسمت میں خوشی نہیں لکھی گئی، بلوچ کی صرف خوشی اور ایک عید ہے، جو صرف اور صرف ہے آزادی۔ بلوچ قوم اس وقت عید منائیگی جب بلوچستان آزاد ہوگا۔اور یہ تبھی ممکن ہے جب پوری بلوچ قوم ایک اجتماعی قومی نظریہ اپنائے تاکہ آئندہ نسل میں کسی بلوچ ماں کو عید پر اپنے بیٹے کا انتظار نہ کرنا پڑے۔ کسی ماں کو اپنے بیٹے کی قربانی دینا نہ پڑے۔ بچوں کے ہاتھوں میں قلم، کتاب اور کھلونے ہوں۔ بلوچ سماج ایک اعلیٰ انسانی معیار کا سماج ہو۔ لیکن اس کے لیئے ایک طویل المدتی جدوجہد کی ضرورت ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں