
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ رواں ماہ وزیراعظم عمران خان نے ناراض بلوچ‘ قیادت سے مذاکرات کا فیصلہ کیا جس کیلئے انہوں نے عوامی جمہوری وطن پارٹی کے رہنما شاہ زین بگٹی کو بلوچستان میں مفاہمت اور ہم آہنگی کے لیے اپنا معاون مقرر کیا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ دیکھ کر ہم بلوچوں کے دل میں ضرور کئ سوالات نے جنم لیا ہوگا سب سے پہلے تو آخر اتنے سالوں میں اب کیوں ناراض بلوچوں کا خیال آیا اور آیا بھی تو شاہزین بگٹی کو ناراض بلوچوں کو منانے کے انتخاب کے پیچھے کیا مقصد ہے جبکہ کئی ایسی شخصیات موجود ہیں جو شاہزین بگٹی کے مقابلے کہیں زیادہ تجربه کار اور بلوچوں کے حقیقی ہمدرد ہیں جو بلوچوں کے مسائل کو بخوبی جانتے ہیں پھر آخر شاہزین ہی کیوں کیا شاہزین کا وہ سیاسی وزن اور قد ہے کو ان سے مذاکرات کے جا سکیں؟کہیں اس کی پیچھے پاکستان کی کوئی چال تو نہیں وہ ماضی کو دہرانا تو نہیں چاہتا جس طرح سابقہ صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں انہوں نے نواب اکبر بگٹی سے مذاکرات کا ڈھونگ رچا کر پہلے مذاکرات کیے اس کے بعد تختہ دار پر چڑھایا اور فوجی آپریشن کر کے نواب اکبر بگٹی اور کئی بے گناہ معصوم لوگوں کی جان لے لی۔کیونکہ بلوچستان میں جب بھی کسی بڑے نوعیت کے آپریشن کا فیصلہ ہوتا ہے تو اس سے پہلے کسی کٹھ پتلی سیاست دان کو مذاکرات کا دعوت نامہ یا عام معافی کی باتوں کی پٹیاں پڑھا کر بھیجا جاتا ہے تاکہ دنیا کو یہ باور کرایا جا سکے کہ یہ قتل و غارت مجبور ہو کر کی گئی۔‘میاں نواز شریف کے دور حکومت میں جب ڈااکٹر مالک بلوچ وزیر اعلیٰ تھے تو ان دنوں بھی مذاکرات کیے گئے تھے۔
ڈاکٹر مالک کے مطابق پہلے مرحلے میں براہمداغ بگٹی اور خان آف قلات سے مذاکرات ہوئے جن میں سے براہمداغ بگٹی نے جو مطالبات رکھے وہ عام سے تھے جو صوبائی حکومت بھی حل کر سکتی تھی لیکن مزید پیشرفت نہیں ہوئی.روزنامہ انتخاب بلوچستان کے ایڈیٹر اور تجزیہ نگار انور ساجدی کا کہنا ہے کہ اس وقت دو طرح کے لوگ ہیں جو مزاحمت میں مصروف ہیں جن میں سے کچھ پہاڑوں پر ہیں اور کچھ وہ ہیں جو جلاوطنی میں ہیں، ان میں سے جو متعلقہ لوگ ہیں وہ وہی ہیں جو پہاڑوں پر ہیں۔ ان کے مطابق جب تک ان سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے یا صلح کا کوئی امکان نہیں ہو گا حالات ٹھیک نہیں ہوں گے۔
’شاہ زین اپنے کزن براہمداغ سے تو بات کر سکتے ہیں لیکن اس وقت جو مزاحمت ہو رہی ہے ان میں یہ اہلیت نہیں کہ ان لوگوں سے رابطہ کریں اور ملاقات کا کوئی بندوست ہو، یہ بہت ہی دشوار ہے۔ شاہ زین کا اگر سیاسی اثر رسوخ ہے تو وہ ان کے اپنے ضلع تک محدود ہے، اس سے پہلے ان کی سیاسی بلوغت کہیں نظر نہیں آئی۔ چند بااثر لوگوں کا ماننا ہے کہ پاکستان پر چین کا دباؤ ہے کہ سی پیک روٹ پر امن کے قیام کیلئے بلوچوں سے مذاکرات کیے جائیں تاک چین کی سرمایہ کاری محفوط ہوسکے اور سی پیک منصوبوں پر تیزی سے کام ہو سکے۔خیر گمان تو بہت ہیں اب یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ ان سب کہ پیچھے کتنی حقیقت ہے اور کتنا ڈراما ۔
ایک تبصرہ شائع کریں