سی پیک ایک بلوچ کش منصوبہ اور بلوچ وسائل کی لوٹ مار ہے سی پیک سے بلوچستان کے لوگوں کو ثمرات کی بجائے نقصان پہنچ رہاہے خصوصاً گوادر کی مقامی آبادی کو بے گھر کرنے کاسلسلہ تیز کردیاگیاگیا سی پیک کے بعد گوادر کے عوام کو امید تھی کہ اب انہیں روزگار کے ساتھ زندگی کی تمام بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں گی مگر حالات اس کے برعکس ہیں حکومت سی پیک کے حوالے سے بہت بڑے بڑے دعوے توکررہی ہے مگر بلوچستان اورگوادر کے لوگوں کے خدشات اورتحفظات آج حقیقت میں بدل چکے ہیں۔سی پیک کے 65 بلین کدھر لگ رہے ہیں؟ بلوچستان میں تو کوئی ترقی ہوتی نظر نہیں آرہی۔ گوادر، تربت وغیرہ میں بجلی بھی ایران سے آتی ہے۔سی پیک کو ترقی و خوشحالی کا راز قرار دینا ایک بہت بڑا ڈرامہ اور منافقانہ عمل ہے۔سی پیک سے بلوچستان کو کوئی فائدہ نہیں ملنے والا جزائر پہ قبضہ کیا جارہا ہے۔بلوچستان کے ساحل و وسائل بلوچستان کے عوام کی ملکیت ہیں لیکن اس کو نظر انداز کیا جارہا ہے گوادر پورٹ کا معاہدہ ایک غیر منتخب حکومت کا ہے جس میں بلوچستان اور گوادر کے عوام کے مفادات کو نظرانداز کر دیا گیا تھا۔
بلوچستان دنیا کا واحد خطہ ہے جہاں کے معدنیات اوروسائل سے مقامی لوگوں کی بجائے دوسروں کو فائدہ مل رہاہے.سی پیک جو BRIکاایک اہم حصہ ہے۔ “یہ پروجیکٹ پاکستان کے لئے تباہ کن ثابت ہوگا یہ پاکستان کو قرضوں میں ڈبو دے گا اورپاکستان کبھی بھی چین کو قرضہ واپس کرنے کی پوزیشین میں نہیں ہوگا ۔ سی پیک کا سارا فائدہ چین اٹھا رہا ہے اور آگے بھی چین ہی اٹھائے گا جس کی واضح مثال یہ ہے کہ چین پاکستانی مزدوروں کو روزگار بھی نہیں دے رہا بلکہ مزدور بھی چین اپنے ہی ملک سے لارہا ہے۔
پاکستان چین اکنامک کوریڈور اکیسویں صدی کا ایک ایسا سامراجی استحصالی منصوبہ ہے جس کی تباہی سے بلوچ سمیت دیگر اقوام بھی نہیں بچ سکتے ہیں۔ بلوچ جو گذشتہ ستر سالوں سے اپنی قومی آزادی کیلئے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں، آج چینی سفاکیت کا بھی نشانہ بن رہے ہیں، چین پاکستانی توسط سے سمندری راستوں کو اپنی معاشی اور فوجی نقل و عمل کیلئے استعمال کرنے کی تگ و دو میں لگا ہوا ہےچین اپنی استعماری عزائم کو حاصل کرنے کیلئے براہ راست بلوچ سرزمین کو استعمال میں لائے گا۔سی پیک کے راستے میں پڑنے والے بلوچ آبادیوں کو زبردستی اٹھایا جا رہا ہے، گوادر سے لیکر تربت، آواران، پنجگور، خاران، خضدار، مستونگ سمیت بلوچستان کے ایک بھی علاقہ پاکستانی غضب سے نہیں بچ سکا ہے، بلوچستان میں جوانوں سے لیکر بچوں، بوڑھوں اور خواتین بھی پاکستانی ریاستی استعماریت سے محفوظ نہیں رہے ہیں۔حکمرانوں کو بلوچستان کے عوام سے کوئی سروکار نہیں
سی پیک، گوادر ڈیپ سی پورٹ اور دیگر میگا پروجیکٹس یہاں کے ترقی کے لیے نہیں بلکہ یہ ترقی اسلام آباد اور پنجاب کے لیے ہورہے ہیں۔ گوادر میں ماہی گیروں کے گزرگاہوں پر قدغن لگائی گئی ہے آج ماہی گیر کھلے سمندر میں شکار کے لئے محتاج بن چکے ہیں کل پاکستان اور چین گوادر سمیت پوری ساحلی بیلٹ سے بلوچ قوم کو بیدخل کر دیں گے گوادر کے لوگوں کے لئے زمین تنگ کر دی گئی ہے مقامی باشندے پانی کے بوند بوند کے لئے ترس رہے ہیں۔ وہ محنت مزدوری کے پیسوں سے پانی خریدنے پر مجبور ہیں لیکن اب روزی کے ذرائع یکے بعد دیگرے چھیننے کے حربے روبہ عمل لائے جا رہے ہیں تاکہ گوادر سے بلوچوں کا انخلاء ممکن بنایا جاسکے۔ریاست گزشتہ 70 سالوں سے بلوچ قومی وسائل کا استحصال کر رہا ہے،سوئی گیس، سیندک اور ریکو ڈیک منصوبوں سے بے تحاشا فوائد اٹھاکر مقامی لوگوں کو شدید بھوک اور فاقہ کشی سے دوچار کیاگیا ہے۔سی پیک کے سارے منافع بخش منصوبے پنجاب کے حصے میں اور بلوچستان کے حصے میں صرف استحصال، جبری مہاجرت اور سینکڑوں کی تعداد کی جبری حراست ۔قبضہ گیر ریاست کے ان تمام مذموم عزائم سے بچنے کا ایک واحد ذریعہ قومی تحریک آزادی ہے۔میں تمام بلوچوں سے اپیل کرتی ہوں کہ ہر شخص اجتماعی سوچ اپناکر اس آزادی کی تحریک میں اپنا قومی فرض ادا کریں اس فرض کی ادائیگی میں کوتاہی ہمیں ناقابل بیان قومی مشکلات و تباہی سے دوچار کرے گا۔
ایک تبصرہ شائع کریں