بلوچ خواتین کی مزاحمت اور دلیری


انیس سو گیارہ میں 19 مارچ کو پہلی بار خواتین کا عالمی دن منایا گیا۔ فروری 1913 میں پہلی بار روس میں خواتین نے عورتوں کا عالمی دن منایا تاہم اسی سال اس دن کے لئے آٹھ مارچ کی تاریخ مخصوص کر دی گئی اور 8 مارچ کو بطور خواتین کے عالمی دن منایا جاتا ھے ۔دراصل اس دن کے منانے کا اہم مقصد ھے عورت پر جسمانی تشدد ، نفسیاتی ٹارچر غصب شدہ حقوق کے حوالے سے آگہی دی جائے۔بلوچ خواتین کی مزاحمت اور دلیری کی مثالیں صرف بانڈی یا مہناز تک محدود نہیں ہیں، درحقیقت تمام بلوچ تاریخ ایسے ہی کرداروں کا مجموعہ ہے۔نامور بلوچ سیاسی رہنماء، شاعر، محقق اور تاریخ نویس مرحوم میر گل خان نصیر اپنی کتاب ”بلوچستان کی کہانی شاعروں کی زبانی“ میں لکھتے ہیں کہ ”بلوچ تاریخ کی عظمت دراصل عورت کی مرہون منت ہےہمارے معاشرے کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ دنیا میں کوئی بھی قوم عورتوں کو ان کے حقوق فراہم کیے بنا ترقی نہیں کر سکتی ہے۔معاشرے کی ترقی کی کنجی خواتین کو بااختیار بنانے سے وابستہ ہے۔ عورتوں کو ان کے حقوق دینا ہماری ایمان اور آئین کا حصہ ہے۔أج کے اس جدید دور میں بھی بلوچ سماج میں عورت کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہےخواتین جہاں کی بھی ہو وہ معاشی و سماجی ناانصافی کا بدترین شکار رہی ہے لیکن بلوچستان میں سماجی ناانصافی کے ساتھ ریاستی ناانصافی بھی حاوی ہے باشعور سماج اور ریاستیں خواتین کو بنیادی سہولیات فراہم کرتی ہے۔تعلیم و صحت کے بغیر کوئی بھی سماج آگے نہیں بڑھ سکتا لیکن ہمارے یہاں تعلیم و صحت میں ہی خواتین کا زیادہ استحصال ہوتا ہے، چاہے وہ ہراساں کرنے کا منفی عمل ہو یا زچگی کے دوران اموات ہو یا تعلیم و صحت کے مراکز کا نا ہونا ہو۔بلوچ معاشرے میں عورت کا مقام مرد کے برابر لیکن ایک کمزور حیثیت کی مانند ہے بلوچ نے کبھی عورت کی حکمرانی کے بارے میں بھی مخاصحانہ رویہ نہیں اپنا یا قلات بیلہ اور دیگر قبائیلی علاقوں میں ماضی کی تاریخ میں ایسی متعددمورخیں ملتی ہیں جہاں عورتوں نے حکمرانی کی، اپنے دربار لگائے انتظامیہ چلائی اور جنگ کے میدان میں فوجوں کی قیادت کی۔جیسا کہ ہم جانتے ھیں أج مقبوضہ ریاست اپنے تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے بلوچ عورتوں کو گھروں تک محدود رکھنے اور انھیں بلوچ قومی تحریک سے دور رکھنےکی تمام ممکنہ کوششیں کر رہی ھے اور بلوچ سماج میں بگاڑ پیدا کرتے ہوئے صنفی تعصب کو ایک نیا رنگ دے رہی ھے مگر بلوچ خواتیں اِس ظلم و ستم کے خلاف ایک آہنی دیوار بن کر کھڑی ہوئی ہیں اور بلوچ قومی تحریک میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں۔ آج بلوچ عورتیں دنیا کی تمام محکوم قوموں اور ظالم کے خلاف جدوجہد کی اعلی مثال بن چکی ہیں أج جس طرح بلوچستان بھر سے خواتین اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے سراپا احتجاج ہیں جو ریاستی اداروں کے ہاتھوں لاپتہ ہیں وہ ہم سب کے سامنے ھے عورت درد و تکلیف کی اعلیٰ مثال ہے، جس میں رہ کر بھی ایک آہ تک نہیں بھرتی .بانڑی بلوچ سے لیکر لمہ وطن کریمہ بلوچ تک سب نے اپنی زندگیاں اپنی قوم کیلئے جدوجہد میں قربان کردی، جن کی قربانیاں ہمارے لیے باعث فخر ہیں ۔


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی