بلوچ نسل کشی کا ایک طویل سلسلہ ہے، اور بلوچستان میں یہ روز کا معمول ہے بائیس فروری بلوچ نسل کشی کا ایک ایسا ہی سیاہ دن ہے ریاستی ظلم و جبر کے سبب بلوچوں کے پاس کاروبار کے تمام مواقع ختم ہو چکے ہیں اپنی فیملی کا پیٹ پالنے کیلئے مجبوراً پورے مکران سے جھالاوان تک تمام بلوچوں کا کاروبار ایران باڈر پر تیل کے کاروبار سے وابسطہ ہے لیکن اب مسلسل انہیں بھی سنگین جرائم کا نشانہ بنایا جارہا ہے ایران و پاکستان کے متصل سرحدی علاقے حق آباد میں کئی سالوں سے بلوچ نوجوان اپنا گزر بسر کرنے کیلئے تیل کی کاروبار میں منسلک ہیں پیر کو صبح کے وقت جب تیل کے کاروبار کرنے والے نوجوان پاکستان اور ایران کے سرحدی علاقے میں جمع ہوئے اور سرحد کو کھولنے کا مطالبہ کیا تو بلا جواز ایرانی سرحدی فورسز نے فائرنگ کردی اور ۳۷ بے گناہ بلوچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ایرانی فورسز کے ہاتھوں بلوچ قوم بالخصوص نوجوانوں کا اس طرح قتل عام یہ آج کا واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ بلوچ نسل کشی کی ایک طویل سلسلہ ہے ایرانی فورسز نے درجنوں نہتے بلوچوں کو اس طرح بیدردی سے شہید کرکے انگریزی سامراج کے عہد میں ہونے والے امرتسر کے جلیانہ والا باغ کی یاد تازہ کردی۔اس اندوہناک واقعے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔بلوچستان میں عام انسانوں کی حالتِ زندگی ابتر سے ابتر ہوتی جا رہی ہے، جنگ زدہ بلوچستان سے لیکر دنیا کے کسی بھی کونے میں بلوچوں کو محفوظ پناہ گاہ میسر نہیں جس کی وجہ سے بلوچ قوم ایک انتہائی دگرگوں صورتحال سے دوچار ہیں۔ایرانی فورسز نے کھلم کھلا عالمی انسانی حقوق کو پاؤں تلے روندتے ہوئے درجنوں نہتے افراد کو لقمہ اجل بنایا ہے۔ مقبوضہ اقوام پر ہونے والی جبر کے تاریخ پر اگر طائرانہ نظر دوڑائی جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ موجودہ جارحیت جو بلوچ قوم کے خلاف جاری و ساری ہے ایسی جاریت کی مثالیں دنیا کے کسی دوسرے کونے میں دیکھنے کو نہیں ملتی۔ ہم ایرانی حکومت سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ اس واقعے کی شفاف تفتیش کے بعد مجرموں کو سزا اور ایران میں آباد بلوچ قوم کو انصاف فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گی۔
ایک تبصرہ شائع کریں