ذاکر مجید بلوچ ایک عہد ایک نظریہ ۔


بی ایس او آزاد کے سابق وائس چیئرمین ذاکر مجید کو 9 جون 2009 کو پاکستانی خفیہ ایجنسیوں نے مستونگ کے علاقے پڈنگ آباد سے دیگر دو ساتھیوں سمیت اس وقت حراست میں لے کر لاپتہ کردیا جب وہ دیگر دو دوستوں کے ہمراہ مستونگ جارہے تھے ذاکر مجید بلوچ کو پورے بارہ سال کا عرصہ مکمل ہوچکا ہے کہ وہ کال کوٹھڑیوں میں بند گمشدگی کی زندگی گزار رہا ہے جبکہ باہر اس کے اہلخانہ کُرب میں مبتلا ہے۔ذاکر مجید کے لواحقین بلوچستان ہائی کورٹ، سپریم کورٹ آف پاکستان، قائم کردہ کمیشنوں سے ذاکر مجید کے رہائی کے حوالے بارہا اپیل کرچکے ہیں کہ اگر وہ مجرم ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے مگر کوئی سنوائی نہیں ہوئی ذاکر مجید بلوچ کی ہمشیرہ فرزانہ مجید نے ان کی بازیابی کے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کوئٹہ سے کراچی اور اسلام آباد تک لانگ مارچ میں حصہ لیا لیکن تھا مگر پاکستانی خفیہ اداروں و پاکستانی فوج نے ذاکر مجید کو نہیں لوٹایا اور ابھی تک اُنہیں زندان میں قید و بند کئے ہوئے ہیں ۔ذاکر علم و زہانت سے لیس ایک باشعور نوجوان تھا، جس نے غم و رنج دیکھا تھا۔ اپنے باپ کے لاش کو بچپن میں اٹھایا تھا۔ جنہیں قاتلوں نے بلوچ کہہ کر مارا تھا۔ ذاکر ایک پختہ نظریہ رکھتا تھا، جس کو نفرت تھی غلامی سے، اُس غلامی سے جو زبردستی بلوچ قوم پر ٹھونس دی گئی ہے،۔ذاکر مجید، بلوچ سیاست اوربلخصوص طلبا سیاست میں اپنی ویژن اور ذمہ داریوں کے باعث قابل قبول اور آئیڈیل تھا۔ مجید بلوچ مستقل مزاجی اور انتہائی محنت اور لگن کے ساتھ بلوچ نوجوانوں کو غلامی میں آزاد رہنے کی زندگی کا سلیقہ سکھاتا رہا اور اپنی زندگی میں خطرات کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے آزاد وطن کے خواب میں سرگرم ِعمل رہا اور آج بھی ریاستی عقوبت خانوں میں حسین خوابوں کے ساتھ اسیری کے بدترین دن گذار رہا ہے۔ذاکر مجید اپنے آپ میں ایک عہد کا نام ہے۔ وہ عہد جو ایک نظریہ بن کر ہر بلوچ نوجوان کے اندر سمویا ہوا ہے ۔مجید بلوچ کی زندگی انقلاب سے وابستہ تھی، وہ انقلاب اور قومی آزادی کی خاطر سب کچھ سہنے کو پہلے سے تیار بیٹھا تھا، ذاکر مجید بلوچ قومی سوچ اور فکر کے مالک ساتھیوں میں سے ایک تھا۔وہ کھل کر مزاحمتی سیاست کو سپورٹ کرتا تھا جبکہ اس کو اس کے نتائج بھی معلوم تھے کہ مزاحمت کی سیاست میں جیل زندان اور موت ہے لیکن اُس کیلئے قوم سے بڑھ کر کچھ نہیں تھا وہ قوم اور اپنے لوگوں کے اندر موجود تھا اور یہی دشمن کا سب سے بڑا ڈر تھا اس لئے قابض ریاست نے ذاکر مجید کو دیگر ہزاروں لاپتہ افراد کی طرح گمشدہ کر دیا۔فوج اور ایجنسی نے ڈاکٹر مجید کو لوگوں سے دور کر دیا، اس لیئے اس کو پابند سلال کر دیا لیکن کیا سوچ و فکر اور نظریئے کو کبھی پابندسلال کیا جا سکتا ہے؟ کیا دشمن ذاکر مجید کے افکار و خیالات اور اس کے تعلیمات کو پابندسلال کر سکتا ہے؟ بالکل نہیں اور آج ذاکر مجید جان کی تعلیمات فکر اور افکار بلوچ نوجوانوں کی رہنمائی فرما رہے ہیں اور ذاکر مجید جان جیسے دیگر ساتھیوں کی محنت لگن اور جذبہ حب الوطنی اور جدوجہد کے سبب آج بلوچ قومی آزادی کا پروگرام بلوچستان کے ہر کونے سمیت بین الاقوامی دنیا کے سامنے عیاں ہے، ہم یہ تو نہیں جانتے ک ذاکر کب لوٹ کر آئے گا لیکن یہ ہمارہ ایمان ہے کہ ان کا کاروان اپنے منزل مقصود تک ضرور پہنچے گا انشاءاللہ۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی