بلوچ قومی تحریک کے سرخیل رہنماء سردار عطاء اللہ مینگل

سردار عطاء اللہ خان مینگل۔ جو عام طور پر عطاء اللہ مینگل کے نام سے معروف تھے، عطاء اللہ مینگل 13 جنوری 1930 کو مینگل قبیلے کے سربراہ سردار رسول بخش مینگل کے ہاں پیدا ہوئے، انہوں نے ابتدائی تعلیم لسبیلہ سے حاصل کی اور پھر مزید تعلیم کے لئے سندھ مدرسہ کراچی چلے گئے۔ 1953 میں انہیں مینگل قبیلے کا سربراہ منتخب کیا گیا، سردار عطا اللہ مینگل نے 1962 میں قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا اور کامیابی حاصل کرکے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ انہیں بلوچستان کے سب سے پہلے وزیراعلیٰ منتخب ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔سردار عطاء اللہ مینگل نہ صرف بلوچوں کے لئے بلکہ سب کے لئے مشعل راہ تھے۔ عطا ءاللہ مینگل نے لیاری سے ایک اپنی سیاست کی ابتدا کی تھی سردار عطاء اللہ نے صرف اسد اللہ کو اپنا بیٹا نہیں سمجھا بلکہ جنہوں نے بھی بلوچستان اور بلوچ قوم کے حقوق کے لیے جدوجہد کی ان سب بچوں کو اپنا بچہ سمجھا۔انہوں نے ہمیشہ مظلوم اقوام کے لٸے آواز بلندکی تھی،انہوں نے اپنی پوری زندگی بلوچ قوم اور بلوچستان کے لیے وقف کی ۔سردار عطاء اللہ مینگل بلوچ سیاست، مزاحمت اور تاریخ کا ایک ایسا انمنٹ نام ہے جو صدیوں تک بلوچ سیاست پر راج کرتا رہیگا وہ اپنے آپ میں ایک دارالعلوم اور علم، ادب، تاریخ و سیاست کا منبع تھا عطاء اللہ مینگل فکری پختگی، ثابت قدمی، قربانیوں، وطن پرستی، قوم پرستی، اصولوں پر ڈٹے رہنے وہ اپنی ذہنی مہارت، بلند حوصلوں کے ذریعے پیچیدہ حالات سے نمٹنے اور نکلنے کا ہنر بخوبی جانتے تھے۔وہ غلامی کو سخت ناپسند کرتے تھے اور کہتے تھے کہ غلامی سے مرنے کو ترجیح دونگا کسی کا غلام نہیں بنوگا وہ کہتے تھے کہ جس طرح نماز ہر ایک مسلمان پر فرض ہے اس طرح بلوچستان کے لئے لڑنا مجھ پر فرض ہے ۔سردار عطاء اللہ مینگل آئین، قانون اور پارلیمنٹ کے بالادستی نہیں بلکہ گریٹر بلوچستان چاہتے تھے اور وہ ہلمند سے ڈیرہ جات اور بولان سے چابہار تک بلوچوں کے لیڈر ہے۔سردار عطاء اللہ مینگل نے اپنی زندگی کو بلوچ قوم کے نام کررکھا تھا انہوں نے سختیاں جھیلی، قید و بند کی اذیتیں برداشت کی اپنے لخت جگر اسد مینگل کو بھی سرزمین کے لئے قربان کیا لیکن کبھی بھی کسی مرحلے پر ایک لمحے کے لئے مایوس نہیں ہوئے۔سردار عطاء اللہ مینگل نے بلوچ نوجوانوں کے نام اپنے ایک سبق آموز پیغام میں کہا ہے کہ خدا کے لئے اور اس سرزمین کی خاک کے لئے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں۔ اب کوئی اور عطاء اللہ مینگل ہمیں نصیحت کرنے نہیں آئے گا آج ہر ایک بلوچ کو خود اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرکے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔بلوچ قوم کی لئے تمام عمر اپنی لازوال قربانیاں دینے والا یہ عظیم لیڈر 2 ستمبر کی ستمگر دن ہمیشہ کے لئےاس فانی جہاں سے رخصت ہو گیا، سردار عطاء اللہ مینگل کا سانحہ پوری بلوچ قوم پر بجلی بن کر گری بلوچستان غم میں ڈوب گیا اور آج بھی ہر آنکھ اشکبار ہے، ہر دل غم سے نڈھال ہے۔سردار مینگل جسمانی طور پر ہمارے درمیان موجود نہیں رہے لیکن نظریاتی و فکری حوالے سے وہ تاابد ہماری رہنمائی کرتے رہینگے اور ان کی تعلیمات ہمارے لئے اور ہماری آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ ہے۔ بلوچ قوم کے نوجوانوں سے اپیل ہے کہ وہ سردار صاحب کے باتوں پر عمل کرتے ہوئے قومی جدوجہد میں اپنی شمولیت کو مزید متحرک بنائیں اور جدوجہد کو مزید تیز کریں۔ اس قوم پر اب فرض ہے کہ قومی جدوجہد کو کامیابی کی طرف لے جاتے ہوئے ایسے عظیم کرداروں کو ہمیشہ زندہ رکھیں۔ بلوچ قومی تاریخ کے اصل ہیروز یہی ہیں۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی