اٹھاءیس مءی یوم آشوب

 

دور قدیم سے ہم دیکھتے آرہے ہیں کہ طاقتور قوموں نے مظلوم اور کمزور قوموں پر قبضہ کرکے ان پر جبر و تشدد کی نئی تاریخ رقم کی ہے، دہائیوں پر محیط بلوچستان میں جاری ریاستی جبر جہاں آئے روز ایک نئی اور بھیانک شکل اختیار کرتی جارہی ہے وہیں ریاست کی جانب سے بلوچستان کے گنجان آباد پہاڑوں میں ایٹمی تجربات کرنا بلوچوں کی اجتماعی نسل کشی ہے۔ مئی 1998 کو چاغی کے علاقے راسکوہ پر ایٹمی تجربے کر کے چاغی اور گرد و نواح کے علاقوں میں انسانوں اور جانداروں کےلیے زندہ رہنا محال بنا دیا ہے۔ان ایٹمی تجربات نے جہاں سینکڑوں بیماریوں کو جنم دیا وہیں ہزاروں افراد مہلک امراض کا شکار بن کر لقمہ اجل بنے، ایٹمی تجربات سے نکلے فاضل کیمیکلز نے جہاں ہزاروں خاندانوں کی زندگیوں کو اجیرن بنایا وہیں اِس پہاڑی سلسلے میں بسنے والے حیوانات اور جانداروں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ریاست نے جہاں ایک جانب بلوچوں کی سرزمین ڈیرہ غازی خان کے علاقے بغلچر سے یورینیم نکال کر ایٹم بم تیار کیا تو دوسری جانب اسی ایٹم بم کو چاغی کے دامن میں تجربہ کرکے بلوچوں کی اجتماعی نسل کشی کی سنگ بنیاد رکھی۔پاکستان اس تجربے کے بعد پہلا اسلامی ملک تھا جس نے ایٹمی تجربات کرکے خود کو خطے میں منوانے کی کوشش کی لیکن انسانی آبادی کے قریب ایٹمی تجربے نے انسانی زندگیوں کو شدید خطرات میں مبتلا کردیا۔ آج اس واقعے کو چوبیس برس کا عرصہ گذرچکا ہے لیکن اسکے مضر اثرات آج تک برقرار ہیں۔پاکستان نے جس مقام پر یہ دھماکے کیئے تھے، اسکے کچھ ہی فاصلے پر لوگوں کے دیہات موجود تھے، جہاں لوگوں کی آبادی رہائش پذیر تھی، اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق دنیا میں جب اور جہاں بھی ایٹمی دھماکے ہوں، وہ انسانی آبادی سے 200 کلومیٹر کے فاصلے پر ہوں لیکن پاکستان نے جہاں پر ایٹمی دھماکے کیئے وہاں سے بیس کلومیٹر کے فاصلے پر انسانی آبادی رہائش پذیر تھی، جس سے اخذ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان جیسے ملک کے ہاتھوں میں ایٹمی پاور کا ہونا انسانیت اور اس خطے میں انسانوں کیلئے کتنا خطرناک ہے.جوہری دھماکوں کے تجربات آبادی کے نزدیک کرنا بین الاقوامی قواعد و ضوابط کے خلاف ہے جس کی تحقیقات کرنا اقوام عالم کی ذمہ داری ہے۔۔پاکستان نے اپنی ایٹمی تجربات کیلئے بلوچ زمین کا انتخاب کرکے بلوچوں کو یہ باور کرایا کہ پاکستان اپنے ہر جابرعمل کیلئے بلوچستان کا انتخاب کرے گا تاکہ یہاں کے لوگوں کو غلامی کاحساس دیا جا سکے. پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد چاغی کے ان علاقوں میں صاف پانی بالکل ناپید ہو گئی، جبکہ بلوچستان کے سرسبز پہاڑ راکھ میں بدل گئے۔ یہاں کے سینکڑوں افراد جلد اور پیٹ کے بیماریوں میں مبتلا ہوئے، ایک رپورٹ کے مطابق آج بھی چاغی میں کئی بچے ماں کے پیٹ سے بیمار ہوتے ہیں۔ ان علاقوں میں ایٹمی دھماکوں سے تابکاری کے شدید اثرات مرتب ہوئے۔ چاغی سے ایسے کئی بچوں کی تصویریں اب بھی موجود ہیں جن پر تابکاری کے اثرات واضح ہیں، اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پاکستان نے کن تیاریوں کے ساتھ ان علاقوں میں ایٹمی دھماکے کیئے تھے۔ایٹمی دھماکوں کی وجہ سے بلوچستان کے سماجی ڈھانچہ بکھر کر رہ گیا اور اس سماجی ڈھانچے کی وجہ سے معاشی ابتری، فطرت کے نظام کو تباہ کرنا ہے جس کی وجہ سے طویل خشک سالی، فصلات کی تباہی اور قدرتی چراگاہوں کا خاتمہ، مالداری جو بلوچ عوام کا گزر بسر تھا، ختم ہوکر رہ گئے.یہ قوم کو اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ ہمیں پاکستان نے اپنے مفاد کے خاطر برباد کردیا ہے.کل چاغی کے سرزمین کو استعمال کیا گیا تھا تو آنے والے دنوں میں پاکستان خود کو طاقتور ثابت کرنے کیلئے بلوچستان کے کسی اور علاقے کو استعمال کرے گا۔ آج چاغی کے سوا بلوچستان کی دیگر علاقوں پر نظرڈالیں، تو ان علاقوں میں بھی کوئی سہولت موجود نہیں ہے۔ اسکولوں پر ریاستی مورچے بنے ہوئے ہیں یا اگر کچھ اسکولز ہے بھی تو ان میں ٹیچر نہ ہونے کے برابر ہیں۔ انسان بغیر پانی کے زندہ نہیں رہ سکتا، تو آج بلوچستان کی عوام پانی کی بوند بوند کے لیئے ترس رہے ہیں.ایٹمی دھماکوں جیسے گھناؤنے عمل کی مذمت کرنا ہمارے بنیادی فرائض میں شامل ہے۔ اس سے دنیا کو یہ پیغام پہنچانا مقصود ہے کہ بلوچ قوم نہ صرف پاکستان کے جوہری دھماکوں کے تباہ کن نتائج کا سامنا کر رہا ہے بلکہ پاکستان کے جوہری بم پوری دنیاکے وجود اور بقا کے لئے واضح خطرہ ہیں۔


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی