لمّہ وطن بانک کریمہ بلوچ

لمّہ وطن بانک کریمہ بلوچ 1986 کو واجہ مھراب بلوچ کے ہاں دبئی میں پیدا ہوئی، کریمہ بلوچ کی پیدائش کے کچھ عرصے بعد مھراب بلوچ نے اپنے آبائی وطن بلوچستان کا رخ کیا۔

کریمہ بلوچ نے اپنی ابتدائی تعلیم گرلز ہائی سکول اور انٹر کالج تمپ سے حاصل کی اور مذید تعلیم حاصل کرنے کے خاطر عطاشاد ڈگری کالج تربت کا رخ کیا۔

سال 2015 کو بی ایس او آزاد کی کونسل سیشن میں بانک کریمہ بلوچ چیرپرسن منتخب ہوکر بی ایس او کی تاریخ میں پہلی خاتون چیرپرسن بنی اور بلوچ قومی تاریخ میں ایک روشن باب کا اضافہ ہوا

کریمہ بلوچ کی قابلیت اور بہادری کو تراشنے میں بی ایس او آزاد کا کردار ہمیشہ سے نمایاں رہا اور اسی طرح کریمہ بلوچ کی بدولتہی بی ایس او اور بلوچ تحریک میں عورتوں کا کردار نمایاں نظر آتا ہے یعنی کہ بلوچ قوم کی جدوجہد کیلئے دونوں عناصر لازمی ہیںایک فرد کی بہادری اور قابلیت کہ ساتھ ساتھ ایک مضبوط تنظیم جو  ان افراد کی قابلیت کا مجموعہ لیکر چلے اور منزل تک پہنچا دے۔

کریمہ بلوچ ایک مضبوط آواز تھی جو غلامی کی زنجیروں کو ہلا دیتی تاکہ ان کی آواز سے سرزمین کہ باشندے کبھی اپنی  غلامیبھولنے نہ پائیں اور بلوچ عورتیں بھی ان زنجیروں سے چھٹکارا  پانے کیلئے جدوجہد کا حصہ رہیں۔

دشمن کے ظلم کا کوئی پیمانہ نہیں، بنگلہ دیش کی تحریک آزادی میں پاکستان کے مظالم ہم نے پڑھے ہیں لیکن بلوچستان میں جو ہورہا ہے وہ بلوچ قوم کے یاداشت میں پیوست ہوچکا ہے۔ ریاست نے بلوچ عورتوں تحریک سے دور رکھنے کے لئے اُن کی جبری گمشدگی سے بھی گریز نہیں کیا لیکن کریمہ بلوچ اس خوف زدہ ماحول میں بھی آزادی کے لئے سیاسی مزاحمت کے شمع کو جلائے رکھا اور پُر آشوب دور میں بھی مظاہرے اور دوسرے پروگرامز کی اہتمام کرکے اپنی قومی جدوجہد جاری رکھی تھی

بلوچ قوم روز اول سے شدید ظلم و زیادتیوں کا شکار ہوا ہے، مختلف ادوار میں اس ظلم و جبر میں تیزی آئی ہے مگر اب یہ سلسلہ بلوچستان سے باہر مقیم بلوچوں کو براہ راست متاثر کررہا ہے۔کریمہ بلوچ کی دیار غیر میں ناگہانی پراسرار شہادت ایک المیہ ہے، کریمہ بلوچ ایک مضبوط شخصیت کی مالک تھی ۔سیاسی کارکن بانک کریمہ کی شہادت سے بلوچ قوم کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا ہے بانک کریمہ کو بلوچستان میں جان کے خطرے کے باعث کینیڈا جانا پڑا مگر وہاں بھی انکی جان سلامت نہ رہ سکی۔بانک کریمہ بلوچ جن کی پرورش ایک ایسے گھرانے میں ہوئی جہاں روز انقلاب کے نغمے قصّے ہوتے تھے، ایسا گھر جہاں زور سیاست کی بحث و مباحث چل رہے ہوتے تھے، بانک کریمہ نے بچپن میں ہی سب کچھ سیکھ لیا بانک کریمہ بلوچ نے اپنی سیاسی زندگی طالب علم تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد (بی ایس او آزاد) سے شروع کی۔ کریمہ بلوچ طلباء سیاست کی بہت ہی اہم کردار رہی ہے انکی وجہ سے بلوچ قومی شناخت کی بحالی میں بلوچ خواتین کا کردار بہت نمایاں تھا اور آج بھی انہی کی بدولت بلوچ خواتین سیاست میں حصہ لے رہی ہیں بانک کریمہ بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے احتجاجی مظاہرے ریلیاں نکالتی رہی، کبھی کوئٹہ کے سرد سڑکوں پر مظاہرین کے سامنے ظالم کے خلاف مظلوم کی آواز بلند کرتی تھی تو کبھی کراچی میں ریلیاں نکالتی رہی۔۔کریمہ بلوچ کا کینیڈا میں پہلے لاپتہ ہونا اس کے بعد انکی لاش کا ملنا اس بات کا اشارہ کرتی ہے کہ اب بلوچ قوم دیگر ملکوں میں بھی محفوظ نہیں ہے۔بانک کریمہ کے یوم شہادت کے موقع پر ان کی بے مثال کردار کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے بلوچستان بھر میں تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا۔گوکہ بانک کریمہ جسمانی طور پر قوم سے جدا کر دی گئ ہیں مگر بانک کریمہ کا فکر و فلسفہ، جدوجہد اور قربانیاں تاابد زندہ رہیں گے اور ہر آنے والی نسل کی فکری و علمی بالیدگی میں کردار ادا کرینگے۔بانک کریمہ بلوچ کی شہادت بلوچ قوم اور قومی تحریک کے لئے بہت بڑا نقصان ہے بانک کریمہ کی موت سے ہم ایک قومی سیمبل سے محروم ہوچکے ہیں۔ اس عظیم نقصان کی تلافی صدیوں میں ناممکن ہے۔بلوچ قوم کی تاریخ ایسے بہت سے شخصیات سے بھری پڑی ہے جنہیں بلوچ قوم کبھی بھول نہیں سکتا اور نسل در نسل ان کی جدوجہد و قربانیاں قومی تحریک میں توانائی بخشتی رہے گی۔ کریمہ بلوچ نے اپنی جدوجہد جاری کرتے ہوئے بلوچستان کے کونے کونے گلی کوچوں میں آزادی کا پیغام دیا کبھی کوئٹہ کے سرد سڑکوں پر مظاہرین کے سامنے ظالم کے خلاف مظلوم کی آواز بلند کرتی تھی تو کبھی کراچی میں ریلیاں نکالتی رہی۔بانک کو ہمیشہ اپنے سرزمین سے بےپناہ پیار تھا وہ کبھی بھی باہر جانے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی لیکن ایک ایسے فیصلے نے انہیں باہر جانے پر مجبور کیا جو تنظیم کی ایک حکمت عملی تھی کہ بانک کریمہ کا باہر ملک رہنا قوم کے لئے اور تنظیم کے کاموں کو آگے لے جانا ایک خوش آئند اقدام ہوگا۔ جس سے بانک اور کامریڈ لطیف جوہر بلوچ نےتنظیم کے اس فیصلے پر کینڈا جاکر پناہ لے لی اور وہاں جاکر بلوچ قوم کی نمائندگی کرتی رہی۔بی بی سی لندن نے بانک کریمہ بلوچ کو سو با اثر خواتین کے ناموں میں شامل کیا.ریاست کو بانک و ان کے کردار سے بہت خوف تھا ، اسی لئے ریاست نے بانک کو راستے سے ہٹانے کے لئے اپنے کرائے کے قاتلوں کے ذریعے بانک کریمہ کو شہید کردیا لیکن ریاست کو یہ معلوم نہیں کہ کریمہ کو شہید کرنے سے ان کا نظریہ ختم نہیں ہوگا۔ بانک ایک سوچ تھی اس سوچ کو آج ریاست اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے کہ ان کی شہادت نے بلوچ قومی تحریک کو ایک نئیروح بخش دی ھے بلوچستان کی قومی تحریک آج جس شکل میں موجود اور اپنی منزل کی جانب رواں ہے اس میں بانک کریمہ بلوچ کی لازوال قربانیوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ہر گھر میں کریمہ بلوچ جنم لے چکی ہے قومی تحریک فکری ونظریاتی بنیادوں پر منظم شکل اختیار کرتے دور جدید کی انقلابی تحریکوں کا روپ دھار کر منزل کی جانب رواں دواں ہے۔ بانک کریمہ کو بلوچ قوم کبھی بھی فراموش نہیں کرے گی۔



Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی