انصاف کے متقاضی معصوم ہزارہ برادری

 

 

 

 

ہزارہ قوم کا قتل عام بلوچ قومی تحریک سے توجہ ہٹانے کیلئے کیا جارہا ہے، اور یہ حملے بلوچوں کیخلاف آپریشن کیلئے راہ ہموار کرنے کیلئے استعمال کیئے جاتے ہیں۔ پاکستانی قانون نافذ کرنے والے ادارے ہزارہ برادری پر ہونے والے ان حملوں میں ملوث ہیں۔گذشتہ دو دہائیوں کے دوران کم از کم 3000 ہزارہ قتل کردیئے گئے ہیں اور انکی نقل و حرکت اب محض چند کلومیٹروں تک مقفود کردی گئی ہے، وہ ایک محدود علاقے سے باہر نہیں نکل سکتے ہیں۔ وہ جو روزگار کی خاطر جرئت کرکے باہر نکلتے ہیں، انہیں بیدردی کیساتھ قتل کردیا جاتا ہے۔ فروری 2013 میں اسی طرح کے ایک حملے میں ہزارہ قوم سے تعلق رکھنے والے 91 افراد کو قتل اور 200 کو زخمی کیا گیا تھا اس قتل عام کی وجہ سے ہزارہ برادری کی بھاری اکثریت نقل مکانی پر مجبور ہوچکی ہے۔ جو صاحب استطاعت تھے وہ آسٹریلیا یا مغربی ممالک میں آباد ہوگئے ہیں، لیکن جو ہجرت نہیں کرسکے ہیں وہ روزانہ ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ ان پر زیادہ تر حملوں کی ذمہ داریاں سنی عسکریت پسند تنظیمیں جیسے کہ لشکرے جھنگوی اور داعش وغیرہ قبول کرتے آئے ہیں۔ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ لشکرے جھنگوی پاکستانی خفیہ اداروں کا ” اسٹریٹجک اثاثہ” رہ چکا ہے اور افغانستان میں طالبان کے ہمراہ “جہاد” میں شریک رہا ہے۔ لیکن گذشتہ دو عشروں سے اس تنظیم نے نام بدل بدل کر اپنی بندوقیں ہزارہ برادری کی جانب موڑ لی ہیں۔دشمن ریاست” بلوچ مزاحمت کے خلاف بطور حربہ ہزارہ برادری کا قتل عام کررہا ہے۔نواب اکبر خان بگٹی کے صاحبزادے جمیل اکبر خان بگٹی نے سماجی رابطہ ویب سائٹ ٹوئیٹر پر اپنے ایک ٹوئیٹ میں کہا ہے کہ بلوچ کے قتل سے عالمی رائے عامہ کی توجہ ہٹانے کے لئے اور بی ایس او کے سابقہ چیئرپرسن کریمہ بلوچ کے قتل سے عالمی رائے عامہ کی توجہ ہٹانے کے لئے مچھ میں ہزارہ برادری کے گیارہ بے گناہ افرا د کو قتل کیاگیا ہے۔ہزارہ مائیں اپنے پیاروں کی لاشوں کے ساتھ دھرنا دیے بیٹھی ہیں وہ جانتی ہیں کہ ان کی جان ایسے ہی ہے جیسے کسی یتیم بچے کا سر جب کسی نائی کا دل چاہا وہ اس پر بہت کچھ سیکھ لیتا ہے اور ہم اسی ریا ست میں دیکھ رہے ہیں کہ یہ ریا ست ان ہزارہ پر کب سے کیسے کیسے تجربات کر رہی ہے اور علمدار روڈ اور اس کے آس پاس کے قبرستان میں ایک دردوں کی تاریک دفن ہے۔ پاکستان کا ہمیشہ وطیرہ رہا ہے وہ دہشت گردی کو ایک بلیک میلنگ اور حربہ کے طور پر استعمال کرتا آیا ہے۔ وہ ایک دہشت گردی کے الزام سے بچنے کے لیے ایک اور دہشت گردی اورجنگی جرم کا ارتکاب کردیتا ہے۔ آج کریمہ بلوچ کی شہادت جیسی بین الاقوامی دہشت گردی سے توجہ ہٹانے کے لیے مچھ کے علاقے میں ہزارہ برادری کا قتل ایک ایسی ہی کوشش ہے۔ اس بربریت میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے گیارہ معصوم کانکنوں کو شناخت کے بعد اغوا کرکے جس سفاکیت سے قتل کیا گیا، وہ ایک غیر انسانی فعل ہے۔عالمی برادری کا پاکستان کی حیوانیت پراقدام نہ اٹھانا معصوم اور نہتے لوگوں کے قتل میں معاونت کے مترادف ہے۔ جب تک عالمی برادری دہشت گردی کے اصل منبع و مرکز یعنی ریاست پاکستان کے خلاف راست اقدام نہیں اٹھاتا ہے، بلوچستان سمیت خطے میں یہ دہشت گرد ریاست انسانی لہو بہاتا رہے گا۔

کینسر وارڈ کے خالق الیگزینڈرسولنسٹن نے بلکل درست لکھا ہے کہ ہم کس بے ہودہ بے حس معاشرے میں جی رہے ہیں

جہاں ایک درد کو دوسرے درد سے دھو دیا جاتا ہے

ایک خون کے دھبوں کو دوسرے خون سے دھو دیا جاتا ہے

اور کسی اور کی قبر میں کسی اور کو دفن کر دیا جاتا ہے

دیکھو ہم کس بے حس اور بے ہودہ معاشرے میں جی رہے ہیں

ایسا ہی ایک خون

ایسا ہی ایک درد

ایسی ہی ایک قبر

بلوچستان میں نئی صبح، نئے انقلاب کی پیش رو ثابت ہو رہی تھی کہ اس میں اس کینسر زدہ ریا ست نے گیارہ ہزارہ مزدور دفن کر دیے،وہ ہزارہ مزدور جو نہتے تھے،جومعصوم تھے،جو ریا ست کی شیطانی پالیسیوں سے بے علم تھے،جو کچھ نہ جانتے تھے جنہیں کچھ خبر نہ تھی۔

دھرتی بلوچستان پہلے سے ہی کریمہ کے درد سے گزر رہی تھی،وہ ایسا درد تھا کہ ڈیرہ غازی خان سے لیکر جھٹ پٹ تک ایک موم بتی کی شکل میں جل اُٹھا تھا اور ان جلتی موم بتیوں کی روشنی میں یہ صاف نظر آ رہا تھا کہ کریمہ کا خون انصاف کا تکازہ کر رہا ہے اور یہ خاموش اور اندھا قتل اتنی جلدی خاموش نہیں ہونے والا

پر پھر وہی ہوا جو ہوتا ہوا آرہا ہے۔

 ایک خون کے دھبوں کو دوسرے خون سے دھو دیا جاتا ہے۔

اور ریا ست نے ایک درد میں دوسرے درد کو بھر دیا ایک اور قبر میں گیا رہ لاشیں بھر دیں۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی