بانوک کریمہ بلوچ کے قتل سے عالمی رائے عامہ کی توجہ ہٹانے کے لئے مچھ میں ہزارہ برادری کے بے گناہ افرا د کو قتل کیاگیا۔
ہزارہ لوگوں سے نا انصافی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ۔
بلوچستان میں یہ لوگ ١٩٠١میں افغانستان سے آکر یہاں آباد ہوئے تھے۔
اس وقت ان کی تعداد قریبا ایک لاکھ کے قریب تھی کوئٹہ میں ہزارہ لوگو افغانستان سے آکر شہر کے قرب میں واقع مری آباد میں آکر آباد ہوئی تھی اب تو ان کے زیادہ تر لوگ کوئٹہ کے مغربی علاقوں میں قیام پذیر ہیں۔
بعدازاں وقت گذرنے کے ساتھ یہ لوگ وقفے وقفے سے افغانستان سے ہجرت کرکے کوئٹہ میں آباد ہوئے اس وقت ان کی آبادی چار لاکھ کے قریب ہے ۔
ہزارہ لوگو انتہائی پرامن اور محنت مزدوری کرنے والے لوگ ہیں۔
ان کے زیادہ تر لوگ بلوچستان میں کوئلہ کی کانوں میں محنت مزدور ی کرتے ہیں۔
بلوچستان میں ہزارہ برادری کے لوگوں کی سب سے زیادہ تعداد ضلع لورالائی کی تحصیل دوکی میں کوئلے کی کانوں میں کام کررہی ہے۔
اب تو بہت سے ہزارہ لوگوں نے چھوٹا موٹا کاروبار بھی شروع کر رکھا ہے۔
ان کے بہت سے لوگ پڑھے لکھے بھی ہیں۔
ایک انسان ہونے کے ناطے ہزارہ لوگوں کے ساتھ ہونے والے اس ظلم پر ہر آنکھ پر نم ہے۔
نواب رئیسانی کے دور میں بھی جب ان کے ساتھ دہشت گردی کا بڑا سانحہ پیش آیا تھا انہوں نے شہدا کی نعشوں کو دفنانے سے انکار کر دیا تھا۔
یہ دوسرا موقع ہے کہ ہزارہ لوگوں نے بطور احتجاج شہدا کو دفنانے سے انکار کیا ہے۔ ایک خاندان کا کوئی فرد بھی زندہ نہیں بچا ہے جو شہدا کو دفنا سکے۔
کوئٹہ کی سخت ترین سردی میں یہ لوگ اس ظلم کے خلاف اپنے پیاروں کو دفنانے سے انکار کرتے ہوئے شہدا کی میتیوں کو رکھ کر سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان کے آنے تک تادم تحریر شہدا کو دفنانے سے انکار کر دیا ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے ٨ جنوری کو کہا تھا "بلوچستان کے علاقے مچھ میں مارے جانے والے ہزارہ برادری کے دس کان کنوں کے لواحقین ان کی تدفین کر دیں تو وہ آج ہی کوئٹہ چلے جائیں گے"۔
٣جنوری کی شب بلوچستان کے ضلع بولان کے تحصیل مچھ کے علاقے میں مارے جانے والے ہزارہ برادری کے کان کنوں کے لواحقین گذشتہ چھ روز سے کوئٹہ میں میتیں رکھے دھرنا دیے ہوئے ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم ان سے ملاقات کریں۔
ایک تبصرہ شائع کریں