ریاستی عقوبت خانوں میں اذیت بھرا طویل مدتی انتظار

Image

 

شبیر بلوچ وہ نام ھے جس نے بہت کم عمری میں جدوجہد کا آغاز بی ایس او آزاد کے پلیٹ فارم سے کیا اس وقت بی ایس او کے تقریباً درجنوں سنگتوں کی لاشیں برآمد ہوئی تھیں جبکہ کئیوں کو پس زندان کیا گیا تھا لیکن شبیر ایک مکمل انقلابی تھا اور ایک انقلابی کیلئے حالات معنی نہیں رکھتے بلکہ وہ مقصد معنی رکھتا ہے جس کیلئے وہ جدوجہد کرنا چاہتا ہے۔جدوجہد آزادی کا جزبہ ایسا ہے کہ یہاں آپ اپنی عمر کا لحاظ نہیں کرتے بلکہ جب وہ جذبہ آپ کے اندر پیوست ہو جاتا ھے اس کی ایک مثال شبیر بلوچ ھے جس نے اپنی زندگی قومی وقار کی خاطر وقف کر رکھا تھا تنظیم کے کاموں میں وہ ہمیشہ پیش پیش تھا شاید ہی بلوچستان کا کوئی ایسا علاقہ بچا ہو جہاں شبیر نے تنظیمی پروگرام کو نہ پھیلایا ہو. اکثر لوگ کہتے ہیں کہ نوجوان جزباتی ہوتے ہیں لیکن شبیر اُن جزباتی نوجوانوں میں سے نہیں تھا، بلکہ وہ ایک سنجیدہ اور فکری و مستقل مزاج سیاسی رہنماء تھا وہ کوئی کام جلدبازی میں سر انجام نہیں دیتا تھا.2015 کے ہونے والے بی ایس او آزاد کے بیسویں قومی کونسل سیشن میں شبیر بلا مقابلہ تنظیمی مرکزی انفارمیشن کے عہدے پر فائز ہو گئے اور اپنی مزید بھاری ذمہ داریاں اپنے کندھوں پر لیتے رہے وہ تنظیم کی جانب سے دیے گئے ہر عمل کو بخوبی اور بہترین طریقے سے سرانجام دیتے تھے.شبیر دیگر تنظیمی ساتھیوں کے ہمراہ گورکوپ میں ایک دیوان میں تھے کہ دشمن نے علاقے پر حملہ کر دیا، یہ آپریشن بی ایس او آزاد کے پروگرام کو سبوتاز اور اُن کے لیڈروں کو گرفتار کرنے کیلئے سر انجام دیا گیا تھا۔ آپریشن میں باقی دوست سلامت رہے لیکن دشمن نے شبیر کو جبری اغوا کر لیا أج پانچ سال ہو گیے مگر شبیر بلوچ کی کوئ خیر خبر نہیں کہ وہ کس حال میں ہیں۔ شبیر اُن نوجوانوں میں سے ایک ہے، جو تبدیلی کیلئے ہر مصیبت کا سامنے کرتے ہوئے آج زندان میں بند اذیتیں سہہ رہا ہے۔ مگرمیں یہ کہہ سکتی ہوں کہ شبیر بلوچ اذیت بر داشت کر رہا ہے، وہ اچھے مستقبل کے لیئے آزاد خو دمختار وطن کیلئے سب کچھ قربان کررہا ہے۔ جب وہ بی ایس او آزاد جیسے تنظیم کا رکن منتخب ہوا، انہوں نے اُسی دن فیصلہ کیا ہوگا کہ ہمیں ہر طرح کے تکلیف کو بر داشت کرنا پڑے گا، مجھے زندانوں میں بند کیا جائے گا یا مجھے شہید کیا جاسکتا ہے۔ 4اکتوبر 2016 وہ دن ہے جس روز پاکستانی خفیہ اداروں اور پاکستانی آرمی کے اہلکاروں نے کیچ کے علاقے گورکوپ سے شبیر بلوچ سمیت بہت سے لوگوں اغوا کرکے اپنے ساتھ لے گئے، جو تا حال لاپتہ ہیں۔ شبیر جان کو پانچ سال ہو گئے ہے، شبیر جان کے بارے میں اب تک کوئی خبر نہیں شبیر جان کے لواحقین نے اسکے اغوا ہونے کے خلاف ہر پرامن احتجاج کیا۔ ہر ممکن کوشش کی گئی کہ شبیر جان کو منظرِ عام پر لایا جاسکے، شبیر بلوچ کی ہمشیرہ سیما بلوچ کا کہنا ہے ہم گذشتہ پانچ سالوں سے مطالبہ کررہے ہیں کہ اگر میرا بھائی کسی جرم میں ملوث ہے تو اسے عدالتوں کے رو برو پیش کیا جائے اور جرم ثابت ہونے پر قانونی اصولوں کے مطابق سزا کے عمل سے گزارا جائے ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا لیکن یوں حبس بے جا ء میں رکھ کر اہلخانہ کو اذیت میں مبتلا کرنا انسانیت کی توہین کے مترادف ہوگا۔بلوچ سیاسی کارکنوں کے خلاف ریاست کی جارحانہ کاروائیاں عالمی اخلاقیات اور اصولوں کے منافی ہیں، جن کے خلاف آواز اٹھانا ہر انسان کا حق ہے۔ بلوچستان میں سیاسی آزادیوں پر مکمل پابندی عائد کرکے پاکستانی فورسز اور ڈیتھ اسکواڈز سیاسی کارکنوں کو قتل اور اغواء کرتے ہیں بی ایس او آزاد کے سابقہ چیئرمین زاہد بلوچ، وائس چیئرمین زاکر مجید، سمیع بلوچ، آفتاب، آصف قلندرانی، عمران قلندرانی اور بی این ایم کے رہنماء ڈاکٹر دین محمد، رمضان بلوچ، غفور بلوچ سیت سینکڑوں نوجوان سالوں سے غائب ہیں۔ ان تمام رہنماؤں کو فورسز کے باوردی اور سول کپڑوں میں ملبوس اہلکاروں نے اٹھایا، لیکن طاقت ور پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ اس حوالے سے کچھ کہنے کو تیار نہیں۔ لاپتہ افراد کے ان خاندانوں کو روزانہ دھمکیاں موصول ہوتی ہیں کہ وہ احتجاج نہ کریں ۔ ان تمام صورت حال کے باوجود اگر اقوام متحدہ کے ادارہ برائے جبری گمشدگی اور دوسرے ادارے خاموشی اختیار کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ بلوچستان میں ہونے والی ریاستی بربریت کی خاموش حمایت کررہے ہیں۔۔أج لاپتہ شبیر بلوچ سمیت تمام بلوچ سیاسی کارکنوں اور تمام جبری لاپتہ افراد کو ہماری اواز کی ضرورت ہے أئیں ان سب کی بازیابی کے لئے آواز بلند کریں۔


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی