بلوچستان میں جاری آپریشنوں اور ریاستی ظلم اور جبر سے بچنے کیلۓ ہزاروں کی تعداد میں بلوچ ہجرت پر مجبور ھیں اس وقت افغانستان دنیا میں سب سے زیادہ بلوچ مہاجرین کو پناہ دینے والا ملک ہےبڑی تعداد میں بلوچ افغانستان بھی ہجرت کرکے پناہ گزینوں کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں اسی طرح بلوچستان کے مکران ریجن کے بلوچ بڑی تعداد میں ہجرت کرکے گولڈ سمڈ لائن کے پار مغربی بلوچستان میں رہ رہے ہیں اور دنیا کے کئ ممالک میں بلوچ پناہ گزین بڑی تعداد میں ہجرت کر کے گئے ہیں مگر ہجرت کے باوجود، بدقسمتی اور جنگ کے اثرات ان بلوچوں کے پیچھے ان دوسرے ممالک تک بھی پہنچ چکی ہے۔ بلوچ مہاجرین، ان ممالک میں بغیر کسی عالمی امداد کے انتہائی کسمپرسی کی حالت میں غیر محفوظ زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔چند سالوں کے دوران سینکڑوں کی تعداد میں بلوچ افغانستان اور مغربی بلوچستان (ایران) میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنائے جاچکے ہیں۔ بلوچ مہاجرین پر حملوں اور دھمکیوں کا سلسلہ محض افغانستان و ایران تک موقوف نہیں ہےمغربی ممالک میں مقیم بہت سے بلوچ پناہ گزین مبینہ طور پر پاکستانی خفیہ اداروں کی جانب سے دھمکیاں موصول کرچکے ہیں۔ بلوچوں کے حقوق کیلئے متحرک مختلف تنظیمیں بلوچ صحافی ساجد حسین اور بلوچ رہنما کریمہ بلوچ کے قتل کا الزام بھی پاکستانی خفیہ اداروں پر عائد کرتے رہے ہیں۔ساجد حسین ایک منجھے ہوئے بلوچ صحافی تھے ساجد حسین بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں، منشیات کے کاروبار اور بلوچستان میں جاری فوجی آپریشنوں پر لکھتے تھے، جس کی وجہ سے وہ پاکستان کے خفیہ اداروں کے نشانہ پر آگئے تھےبالآخر وہ اپنے کام، خاندان اور وطن کو چھوڑ کر جلا وطنی کی زندگی گذارنے پر مجور ہو گیے تھے۔ساجد حسین کی موت ان تمام پناہ کے متلاشیوں کیلئے ایک خطرناک پیغام ہے، جو جان بچانے کیلئے اپنا وطن چھوڑ کر دیار غیار میں پناہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ اب جو زندگی اور خطرات وہ پیچھے چھوڑ آئے ہیں، وہ دوسرے ممالک میں بھی انکا پیچھا کرکے پہنچ رہے ہیں اگر ۔ساجد حسین کو اپنے وطن سے دور غائب کرکے پھر مار دیا جاتا ہے، تو پھر کوئی بھی پناہ گزین اس زعم میں نا رہے کہ ان تک پہنچ کر انہیں مارا نہیں جائے گا۔ایسی ہی ایک مثال بانکھ کریمہ بلوچ ہیں جوبلوچستان میں بلوچ عوام پر پاکستان کی وحشیانہ سلوک کے خلاف آواز اٹھاتی تھیں بانک کی سوچ و مقصد ایک ایسا ملک حاصل کرنا تھا جہاں انسانی حقوق کی پامالی نہ ہو، جہاں برابری ہو جہاں انسان ایک پرسکون زندگی گذار سکے۔ریاست کو بانک و ان کے کردار سے بہت خوف تھا کریمہ بلوچ اپنے دشمن سے بخوبی واقف تھی۔ اسی لیے اس نے کینیڈا جا کر سیاسی پناہ لی مگر دشمن نے وہاں بھی اپنے کراۓ کے غنڈے بھیج کر بانکھ کریمہ کو قتل کروا دیا بلوچ قوم اب اس حقیقت سے بخوبی واقف ہو گئی ہے کہ صرف پاکستان ہی نہیں اسکے ساتھ تجارت کرنے والے ممالک اپنی مفادات کی خاطر پاکستان کے ساتھ بلوچ نسل کشی میں برابر کے شریک ہیں پاکستان اپنے مظالم کا دائرہ کار بڑھا کر بیرون ممالک میں بھی بلوچ ایکٹیویٹیس ، سیاستدانوں اور دانشوروں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ پوری دنیا کی سر زمین کو بلوچ قوم کے لیے تنگ کر رہا ہے ۔بحیثیت بلوچ ہمارے لئے سب سے بڑا لمحہ فکریہ یہ ہے کہ بلوچستان میں ریاستی مظالم سے بچنے کیلئے یہاں سے ہزاروں کی تعداد میں بلوچ خاندان ہجرت کرکے اپنے ہمسایہ ملکوں میں پناہ گزیں کی زندگی گزار رہے ہیں لیکن خصوصا افغانستان میں بدلتی سیاسی اور سماجی صورت حال کی وجہ سے افغانستان میں موجود بلوچ پناہ گزینوں کو بڑی تعداد کو مالی اور جانی خطرے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ہم UNHCR سمیت اقوام متحدہ اور عالمی اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ افغانستان میں موجود بلوچ پناہ گزینوں کے حفاظت کی ذمہ داری اٹھائیں تاکہ بلوچ دنیا کے کسی بھی کونے میں موجود ہے وہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھیں۔
ایک تبصرہ شائع کریں