کسی بھی قوم کی شناخت اس کے زبان اور ثقافت سے ہوتی ہےقوم پرستی کے ترقی اور نشونما کےلیے زبان سمیت تہذیب و ثقافت اور ادب نے ہر ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے جب لوگوں کی تہذیب و ثقافت مشترک ہوتی ہے تو ان کے درمیان ابلاغی رابطہ نہایت آسانی کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے اور وہ ایک دوسرے کے خیالات اور احساسات سے بخوبی آگاہ ہوجاتے ہیں اسی طرح ان کے درمیان ایک مشترکہ شعور و ادراک پیدا ہو جاتا ہے جو ان کی نظریہ قوم پرستی کی بنیاد ہے۔
ثقافت قوموں کی پہچان ہے اور ثقافت ہی قوموں کو زندہ رکھتی ہے۔بلوچ ثقافت ہزاروں سالوں پر محیط ہے اور بلوچ قوم متعدد مشکلات کے باوجود اپنے زبان ،لباس اور رسم و رواج کو زندہ رکھنے میں کامیاب ہوا ہے۔زبان و ثقافت کے بغیر قوموں کا وجود برقرار نہیں رہ سکتا گذشتہ ایک دہائی سے ہر سال دو مارچ کو بلوچ قومی ثقافت کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے ۔
جیسے جیسے مارچ کا مہینہ قریب آرہا ہوتا ہے، ویسے ویسے بلوچ نوجوانوں کے جوش و جذبے دیدہ ور ہوتے جاتے ہیں. جیسے دوسرے اقوام اپنی آزادی کے دن خوشیاں مناتے ہیں، ویسے ہی بلوچ قوم 2 مارچ پہ خوشیاں مناتی ہے۔
ثقافت ایک چھوٹی لیکن بہت ہی وسیع لفظ ہے. اسکے احاطے اور تمام پہلوؤں تک ہم کبھی بھی پہنچ نہیں سکتے لیکن ثقافت کو جو چیز دروشم یعنی شکل و صورت اور ڈھانچہ مہیا کرتا ہے وہ زبان ہے یعنی اگر آپ کی گرفت آپ کے اپنے مادری زبان پہ نہیں تو آپ کی کوئی ثقافت بن ہی نہیں سکتی. بلوچ قوم میں جو چیز سب سے زیادہ اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے وہ ہے عورت کا دوپٹہ اور مرد کی دستار، جن کو اتار کے کسی کے سامنے رکھنے سے صدیوں کے رنجشیں لمحوں میں ختم ہو جاتے ہیں. سخت سے سخت ترین دشمن بھی شیر و شکر ہوتے ہیںثقافت کے امین وہ لوگ ہیں، جو بغیر کسی شوشا، نمائش اور فوٹو سیشن کے ہر دن ثقافتی لباس زیب تن کرکے دستار سر پر سجا کر، سدری اور چوٹ پہن کر چھڑی ہاتھ میں لیکر گلہ بانی، زمینداری اور روز مرہ کے دیگر کاموں کے لیئے نکل جاتے ہیں، اُن کی وجہ سے ثقافت زندہ ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں