بلوچستان میں پاکستان نے جنگل کا قانون رائج کیا ہے، پاکستانی فوج اورخفیہ ایجنسیاں بدمست ہاتھی کی طرح دندناتے پھررہے ہیں، قانون، انسانی اور قومی اقدار ان کے نزدیک کوئی اہمیت و معنی نہیں رکھتے ہیں گذشتہ انیس سال سے مظالم و بربریت پیہم جاری ہے کسی بھی مرحلے پر ان میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آئی ہےروزانہ پاکستانی فوج بلوچ قوم کی نسل کشی کررہا ہےگزشتہ دو عشروں میں بلوچستان میں پیہم جاری مظالم میں ہر گزرتے ماہ و سال کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سے پاکستان کے بلوچ قومی نسل کشی کے عزائم کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ کوئی علاقہ ایسا باقی نہیں رہا کہ جس پر آتش و آہن نہ برسی ہو، لوگ اٹھائے نہ گئے ہوں، گھر نذر آتش نہیں کئے گئے ہوں۔ در حقیقت بلوچستان میں کوئی علاقہ اس آگ سے محفوظ نہیں ہے۔ روزانہ کی بنیادوں پر فوج او ر خفیہ ادارے لوگوں کو اٹھا کر لاپتہ کر رہے ہیں۔ گھر بار، مال مویشی لوٹے جا رہے ہیں۔ ریاستی افواج، خفیہ ادارے اور فوج کے متوازی دہشت گرد ڈیتھ سکواڈ بلوچ قوم کے لئے اپنی ہی سرزمین پر زندگی کو دوزخ بناچکے ہیں۔ لوگوں کی نظروں کے سامنے ان کے جوان بچے اٹھائے جاتے ہیں اورلوگ بے بسی کا عملی نمونہ بن کر سالوں سے احتجاجی جلسوں اور بھوک ہڑتالی کیمپوں میں اپنے پیاروں کی آس لئے نظر آتے ہیں۔ لیکن شاذہی کسی کے آنکھ کا تارا بازیاب ہوتا ہےپاکستان بلوچ قومی تحریک کو کچلنے کے لئے تمام حدود پار کرکے بلوچ قوم کو اجتماعی سزا کا نشانہ بنارہا ہے، اجتماعی سزا عالمی سطح پر مانے گئے قوانین اور جنیوا کنونشن کے مطابق واضح جرم ہے لیکن پاکستان کے لئے عالمی قوانین و انسانی اقدار اپنی وقعت کھوچکے ہیںبلوچستان میں جاری مظالم کی تفصیل دیکھ کر شائد مہذب دنیا کو یہ باتیں فلمی یا افسانوی معلوم ہوں لیکن بلوچ روزانہ ان حالات سے دوچار ہے، بلوچ سیاسی آوازوں، بلوچ سیاسی ورکروں، بلوچ انسانی حقوق کے اداروں، بلوچ دانشوروں کو پاکستان مظالم کے خلاف اس سے کئی درجہ زیادہ آواز اٹھانے، کام کرنے اور منظم ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستانی مظالم و بربریت سے بلوچستان میں انسانی المیہ جنم لے چکا ہے، میڈیا کی عدم موجودگی اور خوف و ہراس کی وجہ سے اصل حقائق سامنے نہیں آتے ہیں۔فوجی آپریشن کے نام پر پاکستانی فورسز نے زیر حراست لاپتہ بلوچ افراد کو شہید کرنے کا گھناونا عمل تیز کردیا ہے۔ اب بلوچ پاکستانی میڈیا کے لیے دہشت گرد اس لیے قرار پائے کہ وہ اپنے حقوق، اپنی بقاء کے لیے آفاقی و دنیاوی قوانین کے مطابق پرامن جدوجہد کررہی ہے۔قیدو بند، اغواء نما گرفتاری پھر مسخ لاشیں بلوچ کا مقدر بن چکے ہیں۔ لاپتہ بلوچ افراد کو جعلی مقابلوں میں شہید کیا جارہا ہے اور یہ وہی سلسلہ ہے جو گذشتہ کئی سالوں سے جاری ہےسی ٹی ڈی تسلسل سے لاپتہ افراد کو جعلی مقابلے میں قتل کرکے دہشت گرد ظاہر کررہی ہے۔ جن لوگوں کو جعلی مقابلے میں قتل کیا جارہا ہے اُن کے گمشدگی کے شواہد موجود ہیںہر مہینے سی ٹی ڈی جعلی مقابلے میں پہلے سے زیر حراست لوگوں کو قتل کرکے مقابلے کا نام دے رہا ہے، اس سے پہلے سی ٹی ڈی مستونگ، بولان اور کوئٹہ کے علاقے مشرقی بائی پاس اور نیو کاہان میں پہلے سے لاپتہ افراد کو قتل کرکے مقابلے کا نام دے چکا ہے پاکستانی فوج نے 15جولائی کو بلوچستان کے علاقے زیارت میں آزادی پسند تنظیم سےمنسلک نو افراد کو مارنے کادعویٰ کیا جو ہمیشہ کی طرح جھوٹ نکلا۔ قتل کیے جانے والوں میں اب تک پانچ افراد کی شناخت ہوچکیہے جنھیں مختلف اوقات میں پاکستانی فوج نے جبری گمشدگی کا شکاربنایا۔ یہ لوگ خفیہ زندانوں میں قید تھے جنھیں فوج نےحراست سے نکال کرمقابلے کے نام پر قتل کردیا۔ قتل کیے جانے والے افراد میں شمس ساتکزئی کو پانچ سال قبل، شہزاد ولد خدابخش دہوار سکنہ کلات کو اسی سال4 جون کو شال میں موسیٰ کالونی سے ،انجینئر ظہیر احمد کو 7 اکتوبر 2021 ، سالم ولد کریم بخش سکنہ بالگتر 18اپریل 2022 ،ڈاکٹر مختیار احمد ولد عبدالحئ سکنہ نال خضدار کو 11جون کو شال سریاب روڈ میں واقع پولی ٹیکنیکل کالج سے پاکستانیفوج نے جبری گمشدگی کا شکار بنایا تھا۔ سالوں سے پاکستان کا وتیرہ رہا ہے کہ زندانوں میں قید لوگوں کواٹھاکر مقابلے کے نام پرقتل کرکے انھیں آزادی پسند تنظیموںسے منسلک کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اس پر نہتے اور زندانوں میں قید لوگوں کو قتل کرنے کا الزام نہ آئے، لیکن حق اورسچائی کواس طرح کے ہولناک طریقوں سے نہیں چھپایا جاسکتا ہے۔بلوچستان میں سی ٹی ڈی اور دیگر پاکستانی اداروں کی جانب سے لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں قتل کرنا انتہائی تشویشناک ہے۔ انسانی حقوق کے ادارے اس سنگین مسئلے پر آواز اٹھائیں اور جعلی مقابلوں کی روک تھام کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
ایک تبصرہ شائع کریں