گیارہ اگست بلوچ قومی و سیاسی تاریخ میں اہمیت کا حامل ایک دن ہے بلوچ قومی تاریخ میں گیارہ اگست کا دن ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ سامراج کی طویل غلامی سے تاریخ ساز قربانیوں کے بعد بلوچ قومی سرزمین پر گیارہ اگست انیس سو سینتالیس (1947) کو آزادی کا سورج طلوع ہوا تھا اور بلوچ قوم بھی دنیاکے آزاد و خود مختیار اقوام کے صف میں شمار ہوا۔ بلوچ قومی تاریخ میں 11اگست 2018 کا دن اسی تسلسل کے ساتھ یاد رکھا جائے گا، جب طویل جدوجہد کے بعد 11اگست 1947 کو بلوچ وطن کی آزادی کو انگریز سامراج نے قبول کرلیا1839سے لے کر 1947 تک انگریز قبضہ گیریت کے خلاف طویل بلوچ قومی جدوجہد کا حاصل حصول آزاد و خودمختار بلوچستان تھا۔برٹش نو آبادیاتی تسلط کے خاتمے اور تاج برطانیہ کے انخلاء کے بعد11اگست 1947کو بلوچ ریاست کو دنیا کے نقشے میں ایک آزاد قومی ریاست کی شکل میں باقاعدہ تسلیم کیا گیابرصغیر میں انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ شدت کے ساتھ جاری تھی، بلوچ قوم اپنی آزاد تشخص اور شناخت کی حفاظت کے لیئے کمر بستہ تھے۔ کوہستان مری سمیت مکران، جہالاوان اور بلوچستان بھر میں انگریز قبضے کے خلاف بلوچ برسرپیکار تھے تقسیمِ ہندوستان سے چند روز قبل 4 اگست 1947 کے دن لارڈ ماؤنٹ بیٹن وائسرائے ہند محمد علی جناح جو کہ پاکستان کا آنے والا گورنر جنرل تھا انہوں نے خان قلات احمد یار خان کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیا۔ جس میں 11 اگست 1947 کو بلوچستان کے آزادی کا دن قرار دیا گیا۔ بلوچستان کا اس وقت انگریز حکومت کے ساتھ معاہداتی تعلقات تھے اور برصغیر سے بلکل منفرد سیاسی، ثقافتی ، تمدنی تاریخ تھا حکومتِ پاکستان نے بلوچستان کو آزاد اور خودمختار ریاست تسلیم کر لیا۔خان میر احمد یار خان کے سرکردگی میں 15 اگست 1947 بروز جمعہ نمازِ جمعہ سے قبل خانِ قلات (بلوچستان) نے بلوچستان کے مکمل آزادی کا اعلان کردیا اور نمازِ جمعہ کے بعد مسجد کے صحن میں ہی بلوچستان کا جھنڈا لہرایا گیا۔اس وقت بلوچستان کا جھنڈا دو رنگوں سبز اور سرخ پر مشتمل تھا جس کی وضاحت نوری نصیر خان اول نے کچھ اس طرح کیا تھا کہ سبز رنگ اسلام اور سرخ رنگ بلوچ ہے
سبز رنگ امن اور سرخ رنگ جنگ ہے
بلوچوں نے ہمیشہ اپنے سر زمین کی دفاع کرتے ہوئے اپنے جانوں کا نظرانہ پیش کر کے غیر اقوام کو اپنے سرزمین پر ٹکنے نہیں دیا_طویل غلامی کے بعدآزادی کے ابتدائی دنوں میں بلوچ قوم اپنی مستقبل کے نوک پلک سنوارنے میں مشغول تھا کہ اس وقت کے سامراجی قوتوں کے مفادات کی چوکیداری کے لئے نئی تشکیل شدہ ریاست پاکستان نے ایک مختصر مدت کے بعد آزاد بلوچستان میں چڑھائی کرکے بلوچ کی آزادی سلب کرلی۔ یوں بلوچستان کی موجودہ غلامی کا نیا اورہولناک دور شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔ بلوچ ریاست زیادہ عرصے تک اپنی قومی آزادی کو برقرار نہ رکھ سکی اور نو مہینے کے مختصر عرصے میں پاکستانی اور برطانوی سازشوں کا شکار ہو کر غلامی کی زنجیروں میں جھکڑ لی گئی۔ غلامی سے آزادی کا سفر اور آزادی سے غلامی کا سفر کئی سوالات اور خدشات کو جنم دیتا ہے کہ آیا آخر وہ کونسے عوامل کارفرما تھے کہ بلوچ آزادی برقرار رکھنے میں ناکام ہوئے؟ان سوالات اور خدشات پہ غور و خوض کرنے کے بعد ہی موجودہ تحریک آزادی کے مستقبل کا تعین کیا جاسکتا ہے۔ ان عوامل کو نظر انداز کرکے ہم بحثیت بلوچ ماضی کی غلطیوں کا مرتکب ہوسکتے ہیں جس کا خمیازہ ہمیں آزادی کی تحریک سے دستبرداری یا ایک مرتبہ پھر آزادی سے محرومی کی صورت میں مل سکتی ہے۔آزادی نہ صرف ایک نعمت ہے بلکہ آزادی قوموں کی ترقی اور خوشحالی کا اولین زینہ ہے۔ دنیا میں وہی قومیں ترقی کے منازل طے کرتی ہے جو سیاسی شعور سے لبریز ہے سیاسی شعور آزادی کی منزل کو پانے اور آزادی کو برقرار رکھنے کا موثر آلہ ہے۔ سیاسی شعور کے بغیر آزادی کی امید کرنا ایک سراب کے سوا کچھ نہیں۔کہ بلوچستان پر قبضہ نے نہ صرف بلوچ قومی زندگی،قومی تشخص،قومی بقا اور تہذیب و ثقافت کو تہہ و بالا کردیا بلکہ خطے کی موجودہ تباہ کن صورت حال بھی کافی حدتک بلوچستان کی قبضہ گیریت سے جڑا ہوا ہے۔ کیونکہ ایک آزاد بلوچستان خطے کے لینڈلاک ممالک کے لئے پوری دنیاسے سمندری رابطوں کا وسیلہ،خوش حالی اور اپنے سیکولر تشخص و روایتی مذہبی رواداری سے ہم آہنگی کا ضامن بن سکتاتھا۔ آج بھی خطے کی مقدر بلوچستان کی حیثیت سے منسلک ہے۔ بلوچستان کی غلامی جتنی طویل ہوگا، اس کامختلف صورتوں میں بھاری خمیازہ نہ صرف بلوچ قوم بلکہ خطے کے ممالک کو اٹھانا پڑے گا۔
بلوچوں نے ہمیشہ اپنے سر زمین کی دفاع کرتے ہوئے اپنے جانوں کا نظرانہ پیش کر کے غیر اقوام کو اپنے سرزمین پر ٹکنے نہیں دیا_طویل غلامی کے بعدآزادی کے ابتدائی دنوں میں بلوچ قوم اپنی مستقبل کے نوک پلک سنوارنے میں مشغول تھا کہ اس وقت کے سامراجی قوتوں کے مفادات کی چوکیداری کے لئے نئی تشکیل شدہ ریاست پاکستان نے ایک مختصر مدت کے بعد آزاد بلوچستان میں چڑھائی کرکے بلوچ کی آزادی سلب کرلی۔ یوں بلوچستان کی موجودہ غلامی کا نیا اورہولناک دور شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔ بلوچ ریاست زیادہ عرصے تک اپنی قومی آزادی کو برقرار نہ رکھ سکی اور نو مہینے کے مختصر عرصے میں پاکستانی اور برطانوی سازشوں کا شکار ہو کر غلامی کی زنجیروں میں جھکڑ لی گئی۔ غلامی سے آزادی کا سفر اور آزادی سے غلامی کا سفر کئی سوالات اور خدشات کو جنم دیتا ہے کہ آیا آخر وہ کونسے عوامل کارفرما تھے کہ بلوچ آزادی برقرار رکھنے میں ناکام ہوئے؟ان سوالات اور خدشات پہ غور و خوض کرنے کے بعد ہی موجودہ تحریک آزادی کے مستقبل کا تعین کیا جاسکتا ہے۔ ان عوامل کو نظر انداز کرکے ہم بحثیت بلوچ ماضی کی غلطیوں کا مرتکب ہوسکتے ہیں جس کا خمیازہ ہمیں آزادی کی تحریک سے دستبرداری یا ایک مرتبہ پھر آزادی سے محرومی کی صورت میں مل سکتی ہے۔آزادی نہ صرف ایک نعمت ہے بلکہ آزادی قوموں کی ترقی اور خوشحالی کا اولین زینہ ہے۔ دنیا میں وہی قومیں ترقی کے منازل طے کرتی ہے جو سیاسی شعور سے لبریز ہے سیاسی شعور آزادی کی منزل کو پانے اور آزادی کو برقرار رکھنے کا موثر آلہ ہے۔ سیاسی شعور کے بغیر آزادی کی امید کرنا ایک سراب کے سوا کچھ نہیں۔کہ بلوچستان پر قبضہ نے نہ صرف بلوچ قومی زندگی،قومی تشخص،قومی بقا اور تہذیب و ثقافت کو تہہ و بالا کردیا بلکہ خطے کی موجودہ تباہ کن صورت حال بھی کافی حدتک بلوچستان کی قبضہ گیریت سے جڑا ہوا ہے۔ کیونکہ ایک آزاد بلوچستان خطے کے لینڈلاک ممالک کے لئے پوری دنیاسے سمندری رابطوں کا وسیلہ،خوش حالی اور اپنے سیکولر تشخص و روایتی مذہبی رواداری سے ہم آہنگی کا ضامن بن سکتاتھا۔ آج بھی خطے کی مقدر بلوچستان کی حیثیت سے منسلک ہے۔ بلوچستان کی غلامی جتنی طویل ہوگا، اس کامختلف صورتوں میں بھاری خمیازہ نہ صرف بلوچ قوم بلکہ خطے کے ممالک کو اٹھانا پڑے گا۔
ایک تبصرہ شائع کریں