نام نہاد جمہوریت

 

کہنے کو تو پاکستان ایک جمہوری ملک ھے مگر یہاں نہ تو آءین ھے اور نہ ہی کوءی قانون۔

آج بھی جب ہر طرف بے حس پاکستانی جمہوریت زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں، کوئی دن بھی ایسا نہیں گزرتا کہ بلوچستان میں فوجی آپریشن میں ہزاروں بے گناہ بلوچوں کو نہ مارا جا رہا ہو۔ روزانہ لاپتہ ہو رہے ہیں۔ مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہیں۔ طالبعلم، استاد، کاروباری، مزدور کوئی محفوظ نہیں۔ مارے جانے کے لیے بلوچ شناخت ہی کافی ہے۔عشروں سے جاری بلوچستان ایشو اور بلوچ جینوسائڈ کی اذیت ناک مطالعے سے یہی نتیجہ نکلتا ھے کہ روز روز مرنے، ذلیل ہونے، اپنے نوخیز و نوجوان بچوں کی گولیوں سے چھلنی لاشوں کو اٹھانے سے بہتر ہے کہ تمام بلوچ عوام اپنے اپنے دیہات اور خستہ و برباد شہروں میں اجتماعی جدوجہد کریں تاکہ معدنی وسائل اور زر و زمین کی بھوکی استعمار کو ہمیشہ کیلئے نیست ونابود کیا جاسکےاور بلوچوں کو روز روز، لمحے لمحے کی ذلالت سے نجات۔بلوچستان میں مسنگ پرسنز پاکستان کی جمہوری چہرے پر بدنما داغ ہے۔ 11 اگست 1947 سے لے کر 27 مارچ 1948 تک بلوچستان ایک الگ ریاست کا وجود رکھتا تھا جس کی اپنی ایک خودمختیار حیثیت تھی جسکا اپنا آئین ,قانون اور جھنڈا تھا جسکی اپنی اسمبلیاں(ایوانِ بالا اور ایوانِ زیریں) تھیں جنہوں نے واضح طور پر ریاست قلات کو ایک آزاد مملکت کے طور پہ ووٹ دیا تھا. لیکن دس مہینے آذاد رہنے والے ملک میں فوجیں اتاریں گئیں اور ریاستی دہشتگردی کے زریعے قبضہ کیا گیا, پھر بلوچ کونسی جمہوریت پہ یقین رکھیں ؟
اور پھر ہم سے گلہ ہے کہ ہم وفادار نہیںکامیاب قومیں وہی ہیں جو تاریخ سے سیکھتی ہیں جو دوسری قوموں کی غلطیوں سے سیکھتی ہیں. اس حوالے سے بلوچ ہونے کے ناطے ہمیں خود سے سوال کرنا چاہئے کہ آیا ہم بھی کالونائزڈ ہیں یا نہیں, وہ تمام پالیسیاں جو ماضی میں نوآبادکار استعمال کرتا آرہا ہے کیا ہم پہ بھی وہی پالیسیاں ریاست پاکستان کی طرف سے لاگو کی گئی ہیں یا نہیں. سب سے سے پہلے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ہم کون ہیں ہماری تاریخ کیا ہے ہمارا اصل مسئلہ کیا ہے کیونکہ جب تک مسئلے کا تعین نہیں ہو سکے گا پھر اسکو حل کرنے کی تمام کوششیں بے سود ہونگی۔ملک میں جولوگ حکمرانی کر رہے ہیں وہ مکمل طور پر ناکام ہوچکےہیں اور اس بات کااعتراف حکمران ٹولہ خود بھی کررہا ہےآج ملک میں قانون کی حکمرانی نام کی کوئی چیز موجود نہیں ملکی وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جارہا ہے یہ صورت حال سراسرعدل و انصاف کے اصولوں کے منافی ھے۔ ہم بلوچستان کے لوگ ستر سالوں سے کرب میں مبتلا ہیں، بلوچستان میں گاؤں کے گاؤں اجاڑ دیئے گئے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوں کو غائب کر دیا گیا ہے، آج بھی ہماری مائیں اور بہنیں سڑکوں پر اپنے بچوں کی بھیک مانگ رہی ہیں۔عوام پر مسلط کردہ سلیکٹڈ حکمرانوں کی نااہلی نے عوامی زندگی اجیرن بنادی ہے، عوام کے مسائل سے کسی کوکوئی سروکارنہیں، گڈگورننس کافقدان ہے، امن وامان کی صورتحال ابتری کاشکارہوتی جارہی ہے، ترقیاتی سرگرمیاں رک گئی ہیں۔  جمہوریت سیاسی عمل اور آئین کی حکمرانی ہی سے ملک میں حقیقی عوامی نظام حکومت کی تشکیل ممکن ہوتی ہے، بدقسمتی سے ملک میں پے درپے آمریت نے فلاحی ریاست کے حصول کی راہ میں روکاوٹ رہی ہے۔بلوچستان میں ایسے ہزاروں واقعات وقت کے فرعونوں کے ہاتھوں رونما ہوچکے ہیں جو ہنوز جاری ہے، جہاں چادر و چار دیواری کے تقدس کو پامال کرنا اب ان کے لیے کوئی بات نہیں ہے، ممتا کے پیار کو آزمائشوں میں ڈال کر ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور مستقبل کے ان معماروں کو ان سے چھین کر اندھیر نگری میں پھینک دیا جاتا ہے اور جمہوریت کے محافظ یہ کہتے تھکتے نہیں کہ ہم بلوچستان میں بھائی چارےکے عمل کے لئے کوشاں ہیں۔ ہم ایسے جمہوریت کا کیا کرے جس کے دروازے پر ہمارے نوجوانوں کے لاش پڑے ہوں۔


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی