بلوچوں کے ساتھ ایرانی حکام کا غیر انسانی سلوک


انسانی حقوق کی تنظیییں ایک طویل عرصے سے اس بات پر تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ ایران میں سزائے موت دینے میں غیر متناسب طور پر ایران کی نسلی اور مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس کے تحت شمال مغرب میں کردوں کو جبکہ جنوب مغرب میں عرب نسل کے لوگوں کو اور جنوب مشرق میں بلوچ نسل کو خاص طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے مغربی بلوچستان میں ایسا کوئی دن یا ہفتہ نہیں گزرتا ہے کہ کسی بلوچ کو ایرانی حکام پھانسی پرنہ چڑھادیں۔ ہر دن، ہرماہ اور ہرسال زندانوں اورسرعام سڑکوں پر ۔پھانسیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہےبنایا جاتا ہے

اس مہذب دنیا میں ایران واحد ملک ہے۔ جہاں بلوچوں کو سڑکوں کے چوراہوں اور بازاروں میں عوام کے سامنے پھانسی دی جاتی ہے۔ جو ایک سفاکیت کی نشانی اور درندگی کی علامت ہے۔ جس سے انسانیت تڑپتی ہے۔ایرانی حکمران جلاد پن کر ساری حدود پار کرچکی ہے۔ کبھی کبھار ایک ہفتے کے دوران پانچ سے زائد افراد کو پھانسی دی جاتی ہے۔ ان پر نام نہاد پاسداران انقلاب کے خلاف بغاوت کے الزام سمیت مختلف مبینہ جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ الزامات ایرانی حکام کی مرضی اور منشا پر مبنی ہوتے ھیں ۔ ایک اندازے کے مطابق ہرسال نام نہاد اسلامی جمہوریہ ایران کی جیلوں میں کم از کم ڈیڑھ سو سے دوسوکے قریب بلوچوں کو پھانسی دی جاتی ہے۔ پھانسیاں خفیہ طورپراور میڈیا کی کوریج کے بغیر دی جاتی ہیں۔حال ہی میں ایران میں عدالت کے حکم پر ‏چار بلوچ قیدیوں کو سزا موت سنا دی گئی ہے۔

تفصیلات کے مطابق قیدیوں کی شناخت خالد رئیسی، امر اللہ بسیج، عبدالناصر شاہ بخش، ہوشنگ شاہنوازی کے ناموں سے ہوئی ہیں۔

ذرائع کے مطابق ان قیدیوں کی سزائے موت پر عمل درآمد کے لیے انہیں زاہدان سینٹرل جیل کے قرنطینہ میں منتقل کیا گیا ہے۔

یاد رہے اگست کے مہینے سے اب تک بائیس بلوچ قیدیوں کو ایرانی عدالتی حکم پر پھانسی دی گئی ہے۔آئی ایچ آر کے بیان کے مطابق جن افراد کو موت کی سزا دی گئی ان سب کا تعلق اقلیتی بلوچ نسل سے ہےجو بنیادی طور پر ایران میں غالب شیعہ مذہب کے بجائے اسلام کے سنی عقائد کو مانتے ہیں۔ناروے میں قائم ایک غیر سرکاری تنظیم (آئی ایچ آر) نے رواں سال جون کو ایران میں پھانسیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔یک رپورٹ کے مطابق جون میں جن افراد کو پھانسی دی گئی اس میں گیارہ مرد اور ایک خاتون شامل ہیںاس سے قبل اس نوعیت کے کیسز میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے کئی افراد نام نہاد ایرانی پاسداران کے جانب سے پھانسی کے سزا پا چکے ہیں۔ پھانسی دیئے جانے والے افراد مغربی بلوچستان کے مختلف علاقوں زاہدان، ایرانشہر اور سراوان سے تعلق رکھتے تھے۔ جنہیں مختلف اوقات میں گرفتار کرکے پھانسی دی گئءگرفتار کئے گئے افراد کے لواحقین کو ان کے پیاروں کے بارے میں نہیں بتایا جاتا ہے۔ لواحقین کو دوران گرفتاری انکے رشتہ داروں سے ملنے نہیں دیا جاتا اور جس دن پھانسی کا وقت مقرر کردیا جاتا ہے۔ تو لواحقین کو کچھ وقت کے لئے ملاقات کا وقت دیا جاتا ہے اور پھانسی دے دی جاتی ہے، جس کے باعث لواحقین اپنے پیاروں کوالوداع بھی نہیں کہہ پاتے-ایران میں مسلک کی بنیاد پر حکومت قائم ہے۔ ایک مسلک کے لئے الگ قوانین اور دوسرے کے لئے الگ قوانین پر عملدرآمد ہوتا ہے۔ اس وقت ایران کی بے شمار جیلوں میں لوگ بند ہیں۔ جبکہ دوسری جانب پاکستانی سفارتخانےکا عملہ بھی ان کی مدد کرنے نہیں آتا۔ جس کی وجہ سے وہ بے بنیاد الزامات کی وجہ سے جیلوں میں قید رہتے ہیںہ ایران کے انسانی حقوق کے اداروں و مہذب ممالک سمیت عالمی ادارے برائے انسانی حقوق و میڈیا بلوچ نسل کشی و ایران میں بلوچ نسل کش پالیسی پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں، جس کے وجہ سے حکومت کو اپنے مخالفین کو کچلنے کی کھلی چھوٹ مل گئی ہےجس کی وجہ سے ہران کی سرکار شروع دن سے ہی بلوچ نسل کشی و انسانی حقوق کی پامالی پر عمل پیرا ہے۔ ‏‎‫بلوچستان کا شمار ملک کے پسماندہ ترین صوبے کے طور پر کیا جاتا ہے جہاں نصف سے ڈھیر آبادی غربت کے لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ حکومت کی جانب سے روزگار کے مواقع نہ ملنے پر صوبے کے نوجوان اپنی مدد آپ کے تحت ذریعہ معاش کےلیے دردر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیںایران کے ساتھ متصل بارڈر پر آئے روز بلوچستان سے ہزاروں لوگ ذریعہ معاش کی آس لیے سرحد کا رخ کرتےہیں۔ معاشی تنگدستی کے باعث تیل کا کاروبار کرنے والے اِن افراد کو روزانہ کے بنیاد پر تنگ کیا جاتا ہے اور غیر انسانی برتائو کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ جہاں ایک جانب روزگار کا یہ طریقہ کار سینکڑوں خاندانوں کے دیوں کو روشن کیا ہوا ہے تو وہیں بارڈر پر لگی پابندیوں اور غیر انسانی سلوک اِن افراد کےلیے وبال جان بھی بن چکا ہے۔ سرحد کے دونوں اطراف اِن کاروباری افراد کو جبر کا نشانہ بنایا جاتا ہےجس کا اظہار چند ماہ پہلے ایرانی فورسز کی جانب سے کیے گئے فائرنگ میں درجن کے قریب گاڑی ڈرائیوروں کا قتل عام کے طور پر کیا گیا۔بلوچ نوجوان مغربی بلوچستان اور مشرقی بلوچستان کو جدا کرنے والی ‘‘گولڈ سمڈ لائن’’ پر تیل کے کاروبار کرتے ہیں۔ بارڈر پر تیل کے کاروبار ان کی مجبوری ہے۔ تاکہ وہ اپنے گھر کا چولہا جلائے رکھ سکیں۔ گولڈ سمڈ لائن کے اطراف آباد بلوچوں کیلئے یہ آمدن کا واحد ذریعہ ہے، جس کے بغیر شدید غربت اور بیروزگاری کی وجہ سے لوگ فاقوں پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ بارڈر پر تیل کے کاروبار سے جڑے ان بلوچوں کو دونوں اطراف پاکستانی اور ایرانی سیکورٹی فورسز کی جانب سے تذلیل کا سامنا رہتا ہے۔ حالانکہ یہ شکایات عام ہیں کہ سیکیورٹی فورسز ان کاروباری افراد سے بھاری رقم رشوت اور بھتے کی صورت زبردستی وصول کرتے ہیں۔ لیکن اسکے باوجود تنگ کرنے کا سلسلہ نہیں روکا جاتا۔مغربی بلوچستان اور مشرقی بلوچستان کو جدا کرنے والی ‘‘گولڈ سمڈ لائن’’ پر تیل کے کاروبار کرتے ہیں۔ بارڈر پر تیل کے کاروبار ان کی مجبوری ہے۔ تاکہ وہ اپنے گھر کا چولہا جلائے رکھ سکیں۔ گولڈ سمڈ لائن کے اطراف آباد بلوچوں کیلئے یہ آمدن کا واحد ذریعہ ہے، جس کے بغیر شدید غربت اور بیروزگاری کی وجہ سے لوگ فاقوں پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ بارڈر پر تیل کے کاروبار سے جڑے ان بلوچوں کو دونوں اطراف پاکستانی اور ایرانی سیکورٹی فورسز کی جانب سے تذلیل کا سامنا رہتا ہے۔ حالانکہ یہ شکایات عام ہیں کہ سیکیورٹی فورسز ان کاروباری افراد سے بھاری رقم رشوت اور بھتے کی صورت زبردستی وصول کرتے ہیں۔ لیکن اسکے باوجود تنگ کرنے کا سلسلہ نہیں روکا جاتا۔‘گولڈ سمڈ لائن’’ کے قیام سے اب تک ہزاروں بلوچ موت کے گھاٹ اتارے گئے۔ ان کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ زندہ رہنے کے لئے اشیا خورونوش اور تیل لاتے ہیں۔ اور انہیں سیکیورٹی اداروں کے اہلکار موت کے گھاٹ اتاردیتے ہیں۔ یہ لائن ایک خونی لائن بن چکی ہے۔


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی