دو سالوں سے پابند سلاسل عبدالحمید زہری


عبدالحمید زہری کو 10 اپریل سال 2021 کو کراچی سے حراست میں لینے کے بعد جبری طور پر لاپتہ کردیا گیا تھا، عبدالحمید کے اہلخانہ انکے جبری گمشدگی کے خلاف گذشتہ دو سالوں سے کراچی، اسلام آباد سمیت بلوچستان میں احتجاج ریکارڈ کراچکے ہیں

فاطمہ بلوچ جو کہ عبدالحمید زہری کی بیوی ھیں شوہر کی جبری گمشدگی کے خلاف اور انصاف کی فراہمی کے لئے وہ لاپتہ افراد کے لئے بنائے گئے کمیٹی اور کمیشنز کے سامنے پیش ہوئی عدالتوں میں کیس جمع کرائے البتہ کوئی شنوائی نہیں ہوئی

دو دہائیوں سے جاری جبری گمشدگی اور بلوچ سیاسی کارکنان کے قتل عام کی پالیسی کے حوالے سے کوئی دو رائے نہیں کہ یہ پالیسی بلوچ قومی تحریک آزادی کو کاونٹر کرنے کی کوشش ہے

اس پالیسی کی وجہ سے ہمارے سینکڑوں با شعور بلوچ نوجوان جبری گمشدہ ہیں جن کے بارے میں یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ زندہ ہیں یا شہید کردیے گئے ہیں اور وہیں ہم اس پالیسی کے خلاف کوئی مضبوط حکمت عملی بنانے میں ناکام رہے ہیں جس کی وجہ سے ہم اپنے رہنماوں کی حفاظت کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے ہیں۔

بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ مزید تیز ہو گیا ہے، اب اس میں مزید فورسز کو شامل کیا جا رہا ہے جس طرح کہ اب سی ٹی ڈی بھی لوگوں کو اٹھا کر لاپتہ کررہی ہے، جو کہ تشویشناک ہیں

اس طرح کے حرکتوں سے وہ امن قائم نہیں کر سکتے بلکہ لوگوں کے دلوں میں مزید نفرت پیدا کر سکتے ہیں

آج عبدالحمید زہری کی جبری گمشدگی کو دو سال کا عرصہ ہو گیا پتہ نھیں ان دو سالوں میں انہیں کھانا نصیب ہوتاہوگا کہ نہیں، انہیں سردی گرمی سے بچانے کیلئے کچھ میسر ہوگا کہ نہیں، پتہ نہیں ان کو سونے دیا جاتا ہوگا کہ نہیں بلکہ جوسہولیات ایک قیدی کو میسر ہے وہ بھی انہیں نہیں دیا جاتا ہے۔ لیکن ان کی غیر موجودگی میں ان کے لواحقین، ان کے بچے، ان کیبیوی، جو زندگی گزار رہی ھے وہ ہر لمحہ تشدد میں گذرتی ہے۔

تشدد صرف یہ نہیں کہ کسی شخص کو آپ پابند سلاسل رکھتے ہیں یا کسی شخص کو گھریلو تشدد کا نشانہ بنایاجاتا ہے یا کسی کم عمر بچے سے کام لیا جاتا ہے۔ ہر وہ عمل تشدد ہے جو آپ کو ذہنی و جسمانی حوالے سے نقصان دیتی ہے۔جسمانی تشدد سے آپ چند دن متاثر ہونے کے بعد نارمل زندگی گذار سکتے ہیں لیکن جس طریقے سے جبری گمشدہ کرکے پورےخاندان کو ذہنی حوالے سے مفلوج بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جس طرح ان کے پیاروں کو سالوں سال زندانوں میں بند کرکے انھیں جو زندگی گذارنے پر مجبور کیا جاتا ہے وہ زندگی موت سے بھی بدتر ہوتی ھے ۔

آپ کا اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، آپ کی تمام خوشیاں، آپ کی پوری زندگی ایک جبر، ایک بوجھ بناکر رکھ دیا جاتا ہے۔ آپ اس زندگی کوجینا ہی نہیں چاہتے ہیں۔

عبدالحمید زہری کی بیوی کا کہنا ھے کہ شوہر کی جبری گمشدگی کو دو سال مکمل ہوگئے ہیں مگر ہمیں بحیثیت شہری یہ تک بتانے سے ریاستی ادارے انکاری ہیں کہ انہوں نے کونسا جرم کیا تھا جن کو عدالت میں پیش کرنے کے بجائے یا پولیس کے حوالے کرنے کے یوں لاپتہ کیا جائے؟ ہمیں یہ جاننے کا بھی حق نہیں ہے کہ وہ کہاں ہیں؟

عبدالحمید زہری سمیت تمام لاپتہ بلوچوں کو بازیاب کرکے ہمیں اس کرب اور اذیت سے نجات دلائیں تاکہ ہم اپنی معمول کی زندگی میں پھر سے لوٹ سکیں پھر سے جی سکی پھر اپنی اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے لطف اندوز ہوسکیں۔ ہم یہ زندگی نہیں چاہتے جہاں روزانہ پریس کلب کے سامنے بیٹھے رہیں۔

آج عبدالحمید زہری سمیت ہزاروں بلوچ نوجوان اس ناکام و غیر فطری ریاست کے تشدد کو برداشت کر رہے ہیں پچھلے 75 برسوں میں اس ملک کے حکمران جو خود کو جمہوری کہتے چلے آ رہے ہیں بلوچستان میں بلوچ نسل کشی ، اغواء نما گرفتاری سمیت تمام غیر جمہوری، غیر فطری ہتھکنڈے استعمال کرتے رہے ہیں۔

عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کو بلوچستان میں انسانی بحران کی روک تھام کے لئے آواز اٹھانے کی اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے ذمہ داریاں پوری طرح ادا کریں۔


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی