زاہد بلوچ کی نو سالہ طویل جبری گمشدگی

 

زاہد بلوچ کی قومی تحریک سے کمٹمنٹ جدوجہد سے دلی وابستگی اور قومی کاز کی خاطر شب و روز محنت لگن کے ساتھ جدوجہد دشمن کیلئے ایک خوف تھا، زاہد کو کسی بھی ریاستی زندان جبر اور بربریت سے ڈر نہیں تھا بلکہ وہ آزادی جیسے نعمت کی اہمیت اور افادیت سے واقف تھا، وہ جانتا تھا کہ اس راہ میں زندان، مسخ شدہ لاشیں، اجتماعی قبروں میں دفنائے جانے کا خطرہ سمیت کوئی بھی نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن قوم اور زمین سے دوستی محبت اور لگن نے چیئرمین زاہد کے اندر سب ڈر اور خوف مٹادیا تھا۔

جب چیئرمین زاہد بلوچ نے 2010 میں تنظیم کا باگ ڈور سنبھالا تو اس وقت ریاست بی ایس او کے خلاف اپنی پوری طاقت استعمال کر رہی تھی، لیکن زاہد نے تنظیم کو پرامن رکھا اور تنظیم کو زیادہ سے زیادہ یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں بحال کرنے کی کوشش کی، زاہد کی جدوجہد قربانیوں اور محنت و لگن کے بعد ہی بی ایس او کے کارکنان اداروں میں اپنے آپ کو مضبوط بنانے میں کامیاب ہوئے، بی ایس او کے پرامن اور شعوری فکر و سوچ کو دیکھ کر پاکستانی ایجنسیاں بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئے تھے، جب 2012 کا کونسل سیشن ہوا اور بعدازان جب س چیئرمین زاہد بلوچ تنظیم کے چیئرمین منتخب ہوئے تو ریاست زاہد سے مزید خوفزدہ ہو گیا

زاہد کی لیڈرشپ میں بی ایس او اب دشمن کیلئے ایک خطرہ بن چُکا تھا اس لیئے ریاست زاہد کی تلاش میں سرگرداں تھا۔

زاہد چھپنے والوں میں نہیں تھا، اس لیے وہ ہر جگہ اپنے دورے کر رہا تھا، شاید ہی بلوچستان کا کوئی ایک ایسا قصبہ گاؤں اور علاقہ ہوگا جہاں زاہد بلوچ نے سفر نہ کیا ہو، جہاں زاہد بلوچ نے بی ایس او اور قومی آزادی کے فکر اور فلسفے کو نہیں پھیلایا ہو، زاہد کی جدوجہد قربانیوں اور محنت و لگن نے تنظیم کو ایک علاقے اور ریجن سے نکال کر پورے بلوچستان میں پھیلایا، جو تنظیم کی تاریخ میں سب سے بڑی کامیابی تھی

زاہد بلوچ پر امن سیاسی جدوجہد کے حامی تھے اور اپنی پر امن جدوجہد کے ذریعے نوجوانوں میں قومی غلامی اور بلوچ وطن کی آزادی کے شعور کو اجاگر کرتے رہے۔ زاہد بلوچ عزم،ہمت اور حوصلے کی مثال تھے اور نوجوانوں طالب علموں کے لئے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔

دشمن کی زاہد کے خلاف تلاش جاری تھی

بدقسمتی سے آخر کار 18 مارچ 2014 کو دوشمن کیلئے وہ دن آ گیا جس کیلئے وہ برسوں سے کوششوں میں تھا، 14 مارچ 2018 کے دن سنگت کو قابض فوج کے اہلکاروں نے لاپتہ کر دیا اُس دن سے لیکر آج تک سنگت زاہد بلوچ میڈیا کے سامنے نہیں لائے گئے ہیں۔

ریاست نے انہیں راستے سے ہٹانے کیلئے اپنی بدنام زمانہ پالیسی ”جبری گمشدگی“ کا سہارا لیکر انہیں اذیت گاہوں میں منتقل کردیا۔ آج انہیں نو سال پورے ہوچکے ہیں۔

زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی پاکستان کا پرامن سیاسی جدوجہد سے خوف کی علامت ہے اور یہ بلوچ آزادی پسند سیاسی پارٹیوں اور تنظیموں کے خلاف پاکستانی بربریت کا حصہ ہے۔ بلوچستان میں جبری گمشدگیاں روز کا معمول ہیں

بلوچستان پر قبضے کے بعد سے بلوچستان میں جبر کی داستانیں رقم ہو رہی ہیں۔ ہر گزرتے وقت کے ساتھ پاکستانی بربریت اور جبر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ فوجی آپریشنوں، ٹارگٹ کلنگ، جعلی مقابلوں، مارو اور پھینکو، جبری گمشدگی، اجتماعی قبروں غرض پاکستان نے بلوچ قوم کے خلاف جبر و بربریت کے تمام حد پار کرلئے ہیں۔

بلوچ قومی تحریک کو کچلنے کے لئے جبری گمشدگی کی پالیسی کے تحت ذاکر مجید، ڈاکٹر دین جان، سمیع مینگل، غفور بلوچ، رمضان بلوچ، سمیت کئی سیاسی رہنما اور کارکن کئی سالوں سے پاکستان نے ٹارچر سیلوں میں منتقل کرکے ان پر غیر انسانی اذیت تشدد کررہا ہے۔ شہید غلام محمد، ڈاکٹر منان جان اور قمبر چاکر سمیت ہزاروں بلوچ پاکستانی فوج کے ہاتھوں قتل کئے جاچکے ہیں۔ پاکستان ان تمام غیر انسانی حربوں کے باجود بلوچ قوم کو شکست دینے میں ناکام ہے۔ قومی تحریک آج بھی آب و تاب کے ساتھ منزل کی جانب رواں دواں ہے۔

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ تحریکیں طاقت کے زور پر دبائے نہیں جاسکتے بلکہ مذید توانائی اختیار کرتے ہوئے اپنے منزل مقصود کی طرف رواں دواں ہوجاتی ہیں۔

زاہد بلوچ کوئی دہشت گرد یا مجرم نہیں ہے جنہیں لاپتہ کیا گیا بلکہ وہ ایک طلبا تنظیم کے رہنما ہے اور اسی کی پاداش میں انہیں نو سالوں سے جبری طور پر پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں نے لاپتہ کیا۔ زاہد بلوچ کو ان کے تنظیم کے دیگر کارکنان کے سامنے پاکستانی اداروں کے اہلکاروں نے حراست میں لیکر لاپتہ کیا۔

زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی کو نو سال کا طویل عرصہ مکمل ہوچکا ہے لیکن ان کو آج تک منظر عام پر نہیں لایا گیا نہ ہی ان کو کسی عدالت کے سامنے پیش کیا گیا ہے اور نہ ہی خاندان اور تنظیم کو زاہد بلوچ کی خیرت حوالے خبر دی گئی ہیں جو صریحاً انسانی حقوق کی سنگین ترین خلاف ورزی ہے

زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف تنظیم نے مقامی اور عالمی سطح پر کئی منظم احتجاج کیئے۔ ریلی، مظاہرے، پریس کانفرنس کے ذریعے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی جدوجہد کی۔ تنظیم کے سابقہ مرکزی کمیٹی ممبر لطیف جوہر بلوچ کو کراچی میں تادم بھوک ہڑتالی کیمپ میں بٹھایا اور دیگر آزادی پسند تنظیموں کی مدد سے عالمی سطح پر بھرپور احتجاج کیا لیکن کوئی نتیجہ بر آمد نہ ہوسکا جو انسانی حقوق کے اداروں کی ساکھ پر سوالیہ نشان ہے۔

اقوام متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت تمام انسانی حقوق کے ادارے زاہد بلوچ کے بازیابی میں اپنا کردار ادا کریںاورہ بلوچستان میں جبری گمشدگی کے خلاف ایک واضح موقف اپنا کر ریاست پر دباؤ ڈالیں اور بلوچ سیاسی اسیران کی بازیابی کے لئے اقدامات اٹھائیں تاکہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی بحالی کو ممکن بنایا جاسکے



Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی