بلوچستان یونیورسٹی کے بڑھتے مسائل


بلوچستان یونیورسٹی بلوچستان کی قديم اور سب سے بڑی یونیورسٹی ہے۔ جس کا کوئٹہ میں 1970کی دہائی میں سنگِ بنیاد رکھا گیا۔
اس میں اسٹوڈنٹس کی تعداد کم و بیش تیس ہزار پر مشتمل ہے، جہاں بلوچستان بھر سے لوگ اپنی علم کی پیاس بجھانے آتے ہیں۔یہ یونیورسٹی اکتوبر 1970 میں گورنر بلوچستان ریاض حسین کی طرف سے جاری کردہ ایک آرڈیننس کے ذریعے قائم کی گئی تھی۔ جون 1996 میں بلوچستان کی صوبائی اسمبلی نے یونیورسٹی آف بلوچستان ایکٹ 1996 منظور کیا۔

اس طرح یہ یونیورسٹی صوبے کی واحد جنرل یونیورسٹی بن گئی جو آرٹس، سائنس، کامرس اور ہیومینٹیز میں اعلی تعلیم فراہم کرتی تھی۔

مگر افسوس آج یہ یونیورسٹی مسائلستان بن گئی ھے آئے روز نئے مسائل جنم لیتے ہیں۔ ان مسائل کو حال کرنے کے لیے یونیورسٹی انظامیہ نہ تو ایکشن لیتے ہی نہ حکومتی تعلیمی ادارے۔ جو کہ طالب علموں کے لیے باعثِ اذیت ہے۔

بلوچستان یونیورسٹی کو سیکورٹی کے نام پر ایک کتابی جیل کی شکل دی گئی ہے۔ جہاں قلم کی خوشببو کم اور بندوقوں کی بو زیادہ آتی ہے۔ اس کتابی جیل میں طلبا شدید ذہنی اذیت کا شکار ہیں۔ یہاں ایک ایک اسٹوڈنٹ کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

بلوچستان پاکستان کا امیر ترین صوبہ ہے جہاں گوادر بندرگاہ، سی پیک منصوبہ اور سیندک کی سونے کی کانوں کے باوجود، بلوچستان یونیورسٹی ایک سرکاری ادارہ ہوتے ہوئے اسٹوڈنٹس سے بہت زیادہ فیس وصول کر رہا ہے۔ بلوچستان کے محتلف شہروں سے آئے ہوئے غریب اسٹوڈنٹس کے لیے یہ فیس ناقابلِ ادا ہوتی ہے۔ یونیورسٹی میں نہ کوئی تعلیمی وَظیفَہ یا اِمداد کا نظام موجود ہے

علیم ایک ایسا زیور ہے جو ہر قوم یا پوری انسانیت کی ضرورت ہے، اور بلوچستان یونیورسٹی وہ واحد یونیورسٹی ہے جہاں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے غریب اور بے بس لوگ آتے ہیں پڑھنے کے لیے، جن کے گھروں میں ایک دن کی روٹی ہوتی تو دو دن بھوکے ہوتے ہیں۔ وہاں‌ یہ ظلم کہ یونیورسٹی میں اسکالرشپس وغیرہ ختم کر دیئے گئے ہیں، فیس بڑھا دی گئی ہے۔ ایسا کوئی متبادل ذریعہ نہیں ہے کہ جس سے طلبا اپنی ضروریات پوری کر سکیں۔

بلوچستان یونیورسٹی مدتوں سے مالی و انتظامی بحران کا شکار ہے

(ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان) ایچ، ای، سی کی جانب سے بلوچستان یونیورسیٹی کی گرانٹ کی کھٹوتی کی وجہ سے یونیورسٹی شدید مالی بحران کی طرف بڑھ رہی ہے۔

جب سے بلوچستان یونیورسٹی میں سمسٹر نظام متعارف کرایا گیا اسی دوران میں فیسوں سو فیصد سے زائد اضافہ اور ہاسٹل سمیت دیگر امتحانی فیسوں میں اضافے سے بلوچستان کے دور دراز اضلاع سے تعلق رکھنے والے غریب والدین پر بوجھ بڑھ گئی شدید پریشانی کی عالم میں مجبور ہوکر ان کے بیھٹے اعلی تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں۔ صوبے کا یہ واحد پبلک جامعہ ہے کہ بلوچستان بھر سے طلبا یہاں زیر تعلیم ہیں۔ ر انتظامیہ کی غفلت اور کرپشن کی وجہ سے بلوچستان یونیورسٹی کو یہ دن دیکھنے پڑھ رہے ہیں

آج وہ دن آگیا ھے جب استاتذہ کو تنخواہیں دینے کے لئے بھی بجٹ نھیں ھے کئی مہینوں سے یونیورسٹی بند ھے اور کئی مہینوں سے استاتذہ اور یونیورسٹی ملازمین کو تنخواہیں نھیں دی گئی

ستم ظریفی کی بات ہےکہ استاتذہ اور ملازمین ماہ مقدس میں بھی بنیادی حق تنخواہ کے لئے احتجاج پر مجبور تھے اور عید الفطر بھی احتجاج کے دوران گذر گیا اور اب عید کے بعد بھی احتجاج جاری ہے لیکن جامعہ کے اساتذہ اور ملازمین کو اب تک انکی بنیادی حق تنخواہ سے محروم رکھا گیا ہیں۔

طویل جدوجہد کے بعد صوبائی فنانس کمیشن کے منعقدہ اجلاس زیرصدارت صوبائی وزیر خزانہ اینجئنر زمرک اچکزئی نے جامعہ بلوچستان کے لئے 38 کروڑ روپے دینے کی منظوری دی لیکن صوبائی سیکرٹری ہائر ایجوکیشن کی جامعہ و تعلیم دشمن روئیےکی وجہ سے ابھی تک منظور شدہ فنڈز جاری نہیں کئے بلکہ فیصلے کے برعکس جامعہ بلوچستان کی خودمختاری کے خلاف ایک غیر قانونی سرکلر جاری کیا گیا جسکو کسی صورت تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔

جامعہ بلوچستان میں تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر احتجاج کرنے والے اساتذہ و ملازمین کے جائز مطالبات پر عمل نہ کرنا تشویشناک ہے۔ کئی عرصے سے وہ تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے سراپا احتجاج ہیں جس کے باعث جامعہ کی تدریسی و غیر تدریسی عمل بندش کا شکار ہیں۔ بارہا ان کا سڑکوں پر آکر احتجاج کرنا اور جامعہ کے تدریسی عمل کا بائیکاٹ کرنے کے باوجود بھی ان کے مطالبات پر سنجیدگی ظاہر نہ کرنا حکومت کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

صوبائی حکومت سمیت وفاقی اداروں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جامعات کو بچانے میں اپنا کردار ادا کریں، تعلیمی کاموں کے لئے فنڈز مختص کرنے میں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا تعلیم دشمنی کے مترادف ہے۔


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی