جبری گمشدگیوں سے بلوچستان میں انسانی المیہ جنم لے چکا ہے، جس سے ہزاروں خاندان متاثر ہیں اور روز افزوں جبری گمشدگیوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ریاستی ادارے اور خفیہ ایجنسیاں
بلوچ سیاسی رہنماوں کارکنوں کو جبری اغوا کر کے ِخفیہ اذیت گاہوں میں لے جاکر انسانیت سوز تشدد کے بعد مارو پھینکو پالیسی کے تحت ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینک دیتی ہیں، ِخواتین ، بچے تک ان کی شر سے محفوظ نہیں۔
فورسز کیجانب سے بلوچوں کو عرصہ دراز سے تنگ کرنے کےلئے عام آبادیوں پر بمباری اور مارو پھینکو کی پالیسی میں تیزی لائی گئی ہے جس کا مقصد بلوچ قوم کو صفحہ ہستی سے مٹا کر بلوچ کی زرخیز زمین کا مالک بننا ہے
بلوچستان میں ستر سالوں سے جاری انسانی حقوق کی پامالیاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شدت اختیار کرتی جارہی ہیں
بلوچستان میں ایسا کوئی فرد یا خاندان نہیں جو انسانی حقوق کی پامالیوں سے متاثر نہ ہو۔ نوجوان بزرگ ،خواتین، بچے اور عرض ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے بلوچوں کی زندگی طاقت کے بے دریغ استعمال کی وجہ سے اجیرن بن چکی ہے
جبری لاپتہ افراد کی تعداد ساٹھ ہزار سے تجاوز کرچکی ہے اور ہزاروں کی تعداد میں مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی اور انسانی حقوق کی شدید ترین پامالیوں کا مظہر ہے جس سے کسی صورت انکار نہیں کیا جاسکتا۔
توتک، پنجگور، ڈیرہ بگٹی اور بلوچستان کے جنگ سے متاثر علاقوں میں اجتماعی قبریں دریافت ہوئی ہیں جو لاپتہ افراد کی تھیں،
بلوچ قوم پر ظلم جبر کے قہر ڈھانے میں کوئی ایک ادارہ ملوث نہیں بلکہ پوری کی پوری ریاستی مشینری سرگرم ہے۔
بلوچستان کے طول و عرض میں بمباری اور آپریشن سے اب تک ہزاروں بلوچ شہید کر دیے گئے ہیں وحشت ناک بمباری کی وجہ سے بلوچ اپنے گھر بار کھیت کھلیان چھوڑنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں جو اب تک باقی علاقوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں
سالوں سے لاپتہ لوگوں کو بازیاب کرنے کے بچائے جبری گمشدگیوں میں تیزی لائی گئی ہے۔ بلوچ قوم کے ذہین اور باشعور نوجوانوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
ہماری غلامی اور بےبسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے آج ہمارے سامنے بلوچ قوم کی بہادر اور بے بس مائیں بہنیں ہیں۔
ہزاروں سال سے بلوچ جس سرزمین کے مالک رہے ہیں آج ان کیلئے زمین تنگ کر دی گئی،
پاکستان کا رویہ بلوچوں کے ساتھ غلام اور آقا کا ہے جیسا کہ کوئی مالک اپنے غلام کے ساتھ بھی نہیں کرتا ہزاروں کی تعداد میں بے گناہ بلوچ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا مختلف اذیت خانوں میں بند اپنے جرم کی لفظی معنی ڈھونڈتے ہوئے خود پر تشدد اور بربریت سہنے پر مجبور ہیں۔
ریاست بلوچ قوم کے دلوں میں خوف پیدا کرنے کے لئے جبر کے تمام طریقے استعمال کررہا ہے۔
تمام جبری لاپتہ اسیران کی عدم بازیابی کے خلاف اور اقوام متحدہ کی خاموشی اور ان کو متوجہ کرنے کے لئے لاپتہ بلوچ اسیران جو یقیناً بلوچ کا عظیم سرمایہ ہیں انکی باحفاظت واپسی کے لئے بلوچستان بھر میں پرامن جدجہد جاری ہے اس کا مقصد بلوچ جبری لاپتہ افراد کے معاملے، بلوچستان میں پاکستانی افواج کے مظالم کو عالمی دنیا کے سامنے لانا ہے اور دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنا ہے کہ وہ بلوچ نسل کشی کا نوٹس لے۔
اس ریاست کو سمجھ لینا چاھئےکہ جب ظلم تشدد اور حیوانیت حد سے گزر جائے اور لوگوں کو مجبوراً اپنے خلاف اٹھ کڑے ہونے پر مجبور کیا جائے تو قومیں ایک ایسی طاقت بن کر ابھرتی ہیں پھر انہیں روکنا ناممکن ہو جاتا ہے۔اور بلوچ اس حق کی راہ میں سروں کی قربانیوں سے پیچھے نہیں ہٹینگے۔
ایک تبصرہ شائع کریں