وہ وہاں درد کا دامن لئے بیٹھی ھیں جہاں سے وہ لکیر شروع ہوتی ھے جسے ریڈ زون کہتے ھیں

زیارت میں زیر حراست لاپتہ افراد کی جعلی مقابلے میں قتل کے بعد بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے ریڈ زون میں گورنر ہاؤس کے سامنے جاری بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کا احتجاج اور بلوچ ماؤں کی بے وسی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ اول تو یہ کہ یہ علاقہ ریڈ زون کیوں کہلاتا ہے؟ کیونکہ یہاں پر سپریم کورٹ کی بلوچستان رجسٹری کی بلڈنگ, بلوچستان سول سیکٹری ایٹ ، وزیر اعلیٰ ہاؤس اور آفس، گورنر آفس اور ہاؤس، تمام وزرا کے سرکاری گھر اور دفاتر، بلوچستان اسمبلی، بلوچستان ہائی کورٹ، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اور ضلعی کچہری سمیت پاس ہی سول ہسپتال، پی ٹی سی ایل ہیڈ آفس، پوسٹ آفس بلوچستان کا دفتر، سرینا ہوٹل، کنٹونمنٹ بورڈ، کمشنر کوئٹہ اور ڈی سی آفس، اور قریب ہی بلوچستان تمام اور پاکستان لیول کے وکلا کے دفاتر، کوئٹہ پریس کلب، یہ تمام آفیسز اور ان کی بلڈنگز ایک دوسرے سے جڑے ہوۓ ہیں، یہ سب مل کر پورے بلوچستان کی تقدیر کا فیصلہ کرتے ہیں جن کے اثرات بلوچستان کی حد تک مرکز پر بھی پڑتے ہیں۔أجکل اسی ریڈ زون پر مسنگ پرسنز کی لواحقین دھرنا دیئے بیٹھے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔یہ بے بس لوگ گزشتہ ایک مہینے سے مسلسل اپنے جائز مطالبات لئے اسی ریڈزون میں بے یار ومددگار بیٹھے ہیں انھیں سننے والا کوئی کیوں نہیں، یہ مسلسل کمزور اور بیمار پڑھ رہے ہیں ، ان کی خوراک، آرام، سونا، جاگنا ، قدرتی حاجات و ضروریات سب یہیں پر ہورہے ہیں۔مظاہرین زیارت آپریشن و جعلی مقابلے میں لاپتہ افراد کے قتل پر جوڈیشل کمیشن کے مطالبے کیساتھ پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کررہے ہیں۔پچاس کے قریب لواحقین پچھلے ایک مہینے سے زیادہ موسم کی شدت میں ریڈ زون میں گورنر ہاؤس کے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں لیکن اب تک انکے مطالبات کو ماننے یا سننے میں حکومت سنجیدہ دیکھائی نہیں دے رہا ہے ۔افسوس کا مقام ہے کہ ملکی خبر رساں اور انسانی حقوق کے اداروں کے نمائندوں کے نظروں سے بھی یہ دھرنا اوجھل ہے جو انھیں نظر انداز کرتے آ رہے ہیں ۔لواحقین کے مطالبات سادہ ہیں کہ زیر حراست افراد کو جعلی مقابلے میں قتل کرنے کا تحقیقات صاف شفاف طریقے سے کرکے آئندہ زیر حراست لاپتہ افراد کو قتل نہ کرنے کی یقین دہانی اور جبری گمشدگیوں کے شکار افراد کو منظر عام پر لا کر عدالتوں میں پیش کیا جائے ۔یہ مائیں گزشتہ کئی دنوں سے وہاں اس امید کے ساتھ بیٹھی ہیں کہ کبھی تو اندر سے بلاوا آئے یایہاں کوئی آکر یہ پوچھے کہ ”کیا بات ہے؟ اور وہ بس انہیں اتنا کہہ سکیں کہ ان گم شداؤں کو مقتولین نہ بنانا جو پابند سلاسل ہیں جنہیں ماؤں نے جنا اور ڈائن جیسی ریاست کھا گئی۔جو بہت سی کتابیں پڑھتے تھے اب جن کے نام گم شدہ افرادوں کی فہرست میں ہیں بس انہیں گم شدہ سے مقتولین نہ بنانابس اتنی سے عرض لیے وہ گزشتہ کئی دنوں سے ”ریڈ زون“ میں موجود ہیں پر ان کے پاس اندر سے بلاوہ نہیں آیا اور نہ ان کے پاس کوئی آکر کچھ دیر بیٹھا۔جو لوگ ریڈ زون میں بیٹھے خیمہ نشینوں کے ساتھ منسلک نہیں ان کا اس سرزمین ان کی سیاست ان کے مسائل اور قوم پرستی سے دور دور کا تعلق نہیں، کیونکہ أج کے بلوچستان کا مسئلہ انھیں خیمہ زنوں سے جڑاہے۔


Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی