تعلیمی محرومیوں کا شکار بلوچستان

بلوچستان اس وقت شدید تعلیمی بحران کا شکار ہے جہاں تعلیمی اداروں کا کوئی پرسان حال نہیں۔تعلیمی حوالے سے حکومت پالیسیاں ناقص و غیرتسلی بخش ہیں۔ تعلیمی نظام کو تباہی کے دہانے پر پہنچایا گیا ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں رٹہ سسٹم کو فروغ دیگر معیاری تعلیم کے نام پر طالبعلموں کو صرف سیاہی پڑھایا جاتا ہے۔ بلوچستان میں تعلیمی نظام نہایت ہی مخدوش ہے جبکہ وفاق کی جانب سے قائم کردہ انتظامی ادارے متعصبانہ انداز میں ہمیشہ ہی سے بلوچستان کو مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں جس کے باعث عموماً بلوچستان بلخصوص بلوچ اکثریتی علاقوں کے طالب علموں کا تعلیمی کیرئیر اثر انداز ہوا ھے، حکمران بلوچستان کو این جی اوز کی سپرد کئے ہوئے ہیں جس سے ان کی بدنیتی و بلوچ دشمنی واضح ہوتی ہے۔ بلوچ نوجوان اپنی مدد آپ کے تحت ملک کے مختلف تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرکے بلوچستان کا رخ کرتے ہیں لیکن حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے نوجوان بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ اگرچہ ہم ترجیحی بنیادوں پر ان نوجوانوں کا خدمات حاصل کریں تو وہ تعلیمی میدان میں بہت بڑا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ وفاقی و صوبائی حکومتیں بلوچستان کے وسائل کی نشاندہی و ان کا کھوج لگانے میں کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے لیکن جب بات بلوچستان کے لوگوں کی تعلیم و ترقی کی ہوتی ہے تو سب آنکھ پھیر دیتے ہیں۔ اگر یہ غیر منصفانہ تاثر یوں ہی برقرار رکھا گیا تو اس عمل سے بلوچ عوام کی دل میں نفرتوں میں اضافے کاباعث بنے گا۔اداروں کی جانب سے قائم کردہ پالیسیاں پنجاب اور دیگر صوبوں کے لئے تو کسی طرح مکمل طور پر جانبدار ہوتی ہیں مگر بلوچستان کے طالبعلم جہاں بہت ہی قلیل سہولیات کے باوجود اعلی تعلیم کے لئے ایک اسٹیج پر پہنچتے ہی ہیں کہ انہی پالیسیوں کا شکار بن جاتے ہیں جس کے باعث طالب علموں کا علمی کیرئیر ضائع ہو جاتا ہے۔بلوچستان کے طالبعلموں کے ساتھ مسلسل ہونے والے نا انصافیوں پر طلبا تنظیموں نے ہمیشہ سے آواز اٹھائی ہے ہم سب جانتے ہیں کہ تعلیم ہی انسانی ترقی کا زینہ ہے جس پر چڑھ کر ہی ہم اپنی منزل حاصل کرسکتے ہیں اور انسانیت کی منزل پر پہنچ سکتے ہیں۔آج کے جدید دور میں بھی بلوچستان کے کءی ایسے علاقے ھیں جہاں تعلیمی نظام انتہاءی افسوس ناک ھے نجی تعلیمی اداروں میں مالکان کی جانب سے طلبہ و طالبات پر مسلسل فیسوں کے اضافہ اور بنیادی سہولیات فراہم نہ کرنا، معیاری ٹیچرز اور جدید سائنس سسٹمز سے محرومی انتہائی تباہ کن ہے جبکہ چند نجی اسکولوں کی جانب سے اسکول میں موجود طالب علموں کو ہی زور دیا جاتا ہے کہ اپنی کلاس روم کو خود ہی صاف کریں جو کہ قابل مذمت ہے اس طرح طلبہ و طالبات اور ان کے مستقبل کے ساتھ غیر ذمہ دارانہ، غیر سنجیدہ اور ظالمانہ رویے تباہ کن اثرات پیدا کریں گے۔آج تعلیم کی اہمیت سے کوئی بھی باشعور فرد انکار نہیں کرسکتا اس لئے بلوچ طالب علم بھی جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تعلیمی میدان میں اعلیٰ مقام حاصل کرنا چاہتا ہے اور اسی کوشش میں لگا ہوا ھے مگر قبضہ گیر ریاست جانتی ہے کہ ایک باشعور بلوچ کبھی بھی اس کی غلامی کو تسلیم نہی کرے گا اور اس کے مظالم کے خلاف کھڑا ہوگا اس لیے وہ بلوچ نوجوانوں کو تعلیم سے دور رکھنے کیلیے ہر طرح کے ہتھکنڈے اپنا رہی ہے .بلوچستان میں طالبعلموں کے جبری گمشدگی کے کیسز تشویشناک حد تک بڑھ چکے ہیں اور آئے روز طالبعلموں کو جبری طور پر لاپتہ کیا جا رہا ہے سینکڑوں کے تعداد میں طالبعلم لاپتہ کیے جا چکے ہیں اور سالوں پابند سلاسل ہونے کے باوجود تاحال انھیں بازیاب نہیں کیا گیا ہے طویل دورانیہ تک لاپتہ ہونے کے باعث اُن کی تعلیمی کیریئر مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے جوکہ آئین و قانون کی نام نہاد بالادستی پر ایک بدستور سوال ہے.ریاست کی پالیسیوں کی وجہ سے أج کا بلوچ نوجوان روزانہ پریس کلبوں کے سامنے سراپا احتجاج بن کر رہ گیا ہے لوگ خوشیاں منانے اکھٹا ہوتے ہیں مگر بلوچ طلباء جب اکھٹا ہوتے ہیں تو کوئی لاپتہ بھائی کے لیے یا اسکالر شپس کے لیے۔بلوچستان میں ریاستی مظالم اور تعلیمی نطام کی زبوں حالی نے طلبہ و طالبات کو مجبور کردیا ہے کہ وہ اپنا قیمتی وقت کلاسز کے بجائے سڑکوں اور پریس کلبوں میں احتجاج کر کے گزارتے ہیں جو کہ بلوچستان حکومت اور محکمہ تعلیم کی نااہلی اور غیر سنجیدگی کو ظاہر کرتی ہیں۔جب طلباء اپنے حق کیلیے اواز اٹھاتے ہیں اور مشکلات کو حل کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں تو ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں.بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں سہولیات کے فقدان اور گٹھن جیسی فضا قائم ہے جس کی وجہ سے بلوچ طالبعلم اپنی سیاسی، سماجی اور علمی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے سے قاصر ہیں۔أج بلوچستان میں طالبعلموں کے جبری طور پر گمشدگی کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوچکا ہے طالبعلموں کوعلم کے بجاۓ زندانوں کے نظر کرنا ایک تشویشناک امر ہے۔

Post a Comment

جدید تر اس سے پرانی